شامی بچوں کی سلامتی سے متعلق رپورٹ اقوام متحدہ میں
9 اپریل 2013گزشتہ دو برس سے جاری شامی تنازعے نے لگ بھگ بیس لاکھ بچوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ Save the Children نے گزشتہ روز پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے سامنے شامی بچوں سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق اس تنازعے کے آغاز سے ہی شامی بچوں کو بھلادیے گئے متاثرین سمجھا گیا، جو موت اور خوف کا سامنا کر رہے ہیں اور بنیادی ضروریات کی کمیابی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اس تنظیم کے مطابق شامی بچوں کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے اور مسلح تنازعے کے دونوں فریق انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ’’ایسی رپورٹیں بھی ہیں کہ آٹھ سال تک کے بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو ان کی پیدائش سے قبل ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے اور ایسی حالت میں حاملہ خواتین ہسپتالوں کا رخ کرنے سے اجتناب برت رہی ہیں۔ ’’اس سے مراد کے اب زیادہ ولادت گھروں میں ہورہی ہے، کسی ماہر طب کی عدم موجودگی میں۔‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام کے قریب بیس لاکھ بچے مدد کے منتظر ہیں۔
امریکی میں قائم اس رضا کار تنظیم نے گزشتہ ماہ اپنی رپوٹ میں انکشاف کیا تھا کہ بچوں کو فائرنگ بھی کی جاتی ہے، ان سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے اور انہیں ہر طرح کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ سیو دی چلڈرن کی چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کیرولن مائلز نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ سلامتی کونسل تک یہ رپورٹ پہنچانے کا مقصد یہ تھا کہ شامی متاثرین تک امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنایا جائے اور امدادی رقم کا بندوبست کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ شامی بچوں کی سلامتی کے لیے کیے جانے والے وعدوں کا محض تین فیصد اب تک ادا کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کے تنازعے میں اب تک قریب 70 ہزار انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس تنازعے کے حوالے سے اتفاق رائے کا فقدان ہے۔
(sks/ ai (Reuters