شامی امن مذاکرات، فریقین منزل سے ابھی بھی بہت دور
25 جنوری 2017وسطی ایشیائی ریاست قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام میں قیام امن سے متعلق مذاکرات کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئے ہیں۔ روس اور شام نے ان مذاکرات کو کامیاب قرار دیا ہے۔ آستانہ میں اپوزیشن نے اپنی تجاویز پیش کرنے کے علاوہ مجموعی عمل پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
ان مذاکرات میں شرکاء نے اس پر ضرور اتفاق کیا کہ روس کی ثالثی میں ہونے والی فائربندی کے عمل کی نگرانی کی جائے گی۔ ایران اور ترکی بھی اس جنگ بندی کے ضامنوں میں سے ہیں۔ دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر روس، ترکی اور ایران نے فریقین کے ساتھ تیس دسمبر سن 2016 سے شروع ہونے والی جنگ بندی کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ تینوں ملکوں نے متحارب فریقین پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے عمل کی نگرانی کریں۔
روسی وفد کے سربراہ الیگزانڈر لیورن ٹئیف نے ان مذاکرات کو شامی تنازعے کے حل کے لیے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور اب اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایسے ہی مذاکرات کا ایک نیا دور اگلے ماہ سوئٹزرلینڈ میں ممکن ہے۔
آستانہ مذاکرات روس، ترکی اور ایران کی کوششوں سے شروع ہوئے تھے۔ امریکا ان مذاکرات میں بطور مبصر شریک تھا۔ اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈے مستورا بھی آستانہ مذاکراتی عمل میں شریک رہے۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران یہ اپنی نوعیت کے پہلے مذاکرات تھے جن میں بشار الاسد حکومت اور شامی اپوزیشن کے مختلف گروپوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
سفارتی حلقوں نے ایسے اندازے لگائے ہیں کہ آستانہ مذاکرات میں خاص طور پر امریکا کی عملی شرکت کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق اپوزیشن کے تحفظات کے تناظر میں اگلے مذاکراتی راؤنڈ میں امریکا اور خلیجی ریاستوں کی شمولیت کا قوی امکان ہے اور ان کی شمولیت سے ہی کسی حتمی ڈیل کا امکان سامنے آ سکتا ہے۔
امریکی شمولیت کے تناظر میں ایران کے سرکاری میڈیا نے واضح کیا کہ تہران امریکی شمولیت کے حق میں نہیں ہے۔ دوسری جانب روسی وفد کے سربراہ الیگزانڈر لیورن ٹئیف کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل میں امریکی شمولیت کا ماسکو حکومت یقینی طور خیرمقدم کرے گی۔ دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ ابھی تک فریقین نے اہم حل طلب معاملات پر کوئی حوصلہ افزاء پیش رفت ظاہر نہیں کی ہے۔