سیلابی ریلا اب ملتان کی طرف
11 ستمبر 2014ملتان شہر کو بچانے کے لئے شیر شاہ بند میں شگاف ڈالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، یہاں دریائے چناب کی سطح میں پانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دریا چناب کے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں میں پانی آ چکا ہے جس کے سبب کپاس اور دھان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ تقصان سے بچنے کے لیے دریا کے اردگرد کے علاقوں کو خالی کروانے کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں، امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے فوج کے تازہ دم دستے بھی یہاں پہنچ چکے ہیں۔ پنجاب ریسکیو سروس کے اضافی اہلکاروں کی نفری بھی کشتیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ یہاں پہنچ چکی ہے۔
محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی بھی تریموں ہیڈ پر سیلاب کا دباؤ برقرار ہے اور یہاں اب بھی پانچ لاکھ کیوسک سے زائد پانی گزر رہا ہے۔ ان کے بقول جھنگ کے علاقوں میں سیلابی پانی کے دباؤ میں اگلے چوبیس گھنٹوں میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن ملتان اور مظفر گڑھ کے قریب دریائے چناب کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے،ان کے بقول اس وقت دریائے راوی میں سندھیانی کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ باقی دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کا کہنا کہ کہ مزید سیلاب کا باعث بننے والی بارشوں کا اگلے چند دنوں میں کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ محکمہ موسمیات نے اگلے چند دنوں میں بدترین سیلابی ریلے کے سندھ میں پہنچنے کی وارننگ بھی جاری کر دی ہے۔
ملتان میں سیلاب کی کوریج کرنے والے ایک صحافی جام بابر نے بتایا کہ ملتان کے نزدیک ابھی ساڑھے تین لاکھ کیوسک پانی گذر رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی ڈھائی لاکھ کیوسک پانی آج رات کے دوران یا اگلے روز یہاں پہنچ سکتا ہے۔ شجاع آباد کے جام بابر کا کہنا تھا کہ سیلابی اطلاعات نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور وہ محفوط مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں سے ایک کالعدم تنظیم کے بھی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے غریب لوگوں میں یہ احساس پا یا جا رہا ہے کہ حکومتیں نئے ڈیم بنانے یا شہروں کی طرف والے دریائی بندوں کو مضبوط بنانے کی بجائے ہر بار ان کی بستیوں کو ہی بند توڑ کر تباہ کیوں کرتی ہیں۔
سیلاب زدگان کی امداد کے لیئے قائم کی گئی پنجاب کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ نے جمعرات کے روز لاہور میں صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ سیلاب نے پنجاب کے اکیس اضلاع کو متاثر کیا ہے، اس سیلاب کی وجہ سے اٹھارہ لاکھ افراد اب تک متاثر ہو چکے ہیں جبکہ دس لاکھ مربع ایکڑ زرعی رقبہ بھی اس سیلاب کی زد میں آیا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کے دوران اب تک صوبہ پنجاب میں ایک سو چوراسی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پنجاب میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد افراد کو سانس کی بیماریاں لاحق ہو چکی ہیں، جبکہ دس ہزار سے زائد سیلاب متاثرین جلدی بیماریوں اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو پیٹ کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے 20 ایسے افراد بھی ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں جنہیں سانپوں نے ڈسا ہے۔
پنجاب کی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو بیس ہزار روپے فی کس کے حساب سے امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹھارہ ہزاری کے نمبردار میاں عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے سیلاب زدگان کی مدد کے دعوے درست نہیں ہیں ابھی تک سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے بہت سے لوگوں تک کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔