سکواش میں پاکستان مسلسل ناکام کیوں ہو رہا ہے؟
27 فروری 2022کئی دہائیوں تک سکواش کی دنیا پر حکمرانی کرنے کے باوجود پاکستان کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ دو دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
نوجوانوں کی دلچسپی میں کمی
اس سلسلے میں جب سابق عالمی چیمپئن قمر زمان سے ڈی ڈبلیو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا ’’آج کل کھلاڑی خود دلچسپی نہیں لیتے۔ کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے کم از کم آٹھ گھنٹے کی پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ایک دو دن کے لیے نہیں بلکہ پریکٹس مسلسل ہونی چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ منصوبہ بندی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ مصر پہلے سکواش میں اتنا کامیاب نہیں تھا لیکن منصوبہ بندی کرنے کے بعد اب عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔
'سکولوں اور کالجوں کی سطح پر اقدامات کی ضرورت‘
قمر زمان کا مزید کہنا تھا کہ سکول و کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر اس کھیل کے فروغ کے لیے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول نجی اکیڈیمز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ قمر زمان نے تاہم اس موقع پر یہ تسلیم بھی کیا کہ حکومت نے کھیلوں کے فروغ کے لیے بہت کچھ کیا ہے لیکن کمی اب بھی ہے۔ اگر بہت سارے بچے کھیلیں تو اس طرح عالمی سطح کے کئی کھلاڑی بھی سامنے آ سکتے ہیں،’’کوچز کی تعداد میں اضافے اور مراعات کو ان کی کارکردگی کے ساتھ مشروط کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے جو کھلاڑی ایک دو عالمی میچ کھیلتے ہیں تو وہ مڈل ایسٹ یا یورپ میں ہی رہ جاتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ کھیل کے معیار کو آگے بڑھانا کھلاڑی کے اپنے بس میں ہوتا ہے یہ ان کی محنت پر منحصر ہوتا ہے۔
سکواش کے فروغ کے لیے اقدامات
گزشتہ ادوار کے دوران سکواش کے فروغ کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں کئی شہروں میں سکواش کورٹس بنائے گئے۔ کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کی گئیں، قومی اور صوبائی سطح پر سکواش کے فروغ کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی، بہترین کوچز تعینات کرائے گئے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود پاکستان کو سکواش میں کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ناکامی کی وجوہات
پروفیشنل سکواش ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں پاکستان چالیس ویں نمبر ہے۔ سکواش میں کھویا ہوا مقام واپس لانے میں ناکامی کی وجوہات کے حوالے سے ایشین سپورٹس جرنلسٹ فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل امجد عزیز ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''سکواش میں جوش وجذبہ ختم ہو رہا ہے۔ سات عالمی چیمپئنز کا تعلق پشاور کے چھوٹے سے گاؤں نواں کلی سے ہے۔ لیکن یہ سلسلہ اب رک چکا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ان کے ساتھ اب کھلاڑیوں کی سوچ بھی بدل چکی ہے اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں زیادہ تر کھیل کی بجائے کوچنگ کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘‘
سہولیات کی کمی نہیں
امجد عزیز ملک کا مزید کہنا تھا کہ سہولیات کا فقدان نہیں ہے اور صوبہ بھر میں سکواش کورٹس بنائے گئے ہیں،''سرکاری سطح پر بہت کام ہو چکا ہے لیکن یہ تو سکواش کے سابق عالمی چیمپئنز اور سینیئرز کا کام ہے کہ نجی سطح پر بھی سکواش کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔‘‘ امجد ملک کے بقول پاکستان سکواش فیڈریشن کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
حکومت نے پشاور سمیت پختونخٰوا کے ہر بڑے شہر میں سکواش کورٹس بنانے ہیں اور ان میں کوچز بھی تعینات کئے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں میں وہ جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے، جو انہیں عالمی چیمپئن بنا سکے۔