سربیا میں مہاجرین سے جڑی معیشت ابھرتی ہوئی
سربیا میں مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مہاجرین سے جڑے کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سربیائی باشندے مہاجر کیمپوں میں جا کر انہیں ضرورت کی اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ سربیا سے ڈیاگو کوپولو کی تصاویر۔
بس سروس
ٹرانسپورٹ کا کاروبار اس بلقان ملک میں انتہائی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ تصویر میں آپ کوسووو سے تعلق رکھنے والے ایک البانوی باشندے کو دیکھ سکتے ہیں جو پریسیوو کے مہاجر کیمپ کے باہر کھڑا ہو کر کروشیا جانے کے خواہش مند مہاجرین کو پینتیس یورو کا بس ٹکٹ بیچ رہا ہے۔ بزازلی نامی اس شخص کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بارٹینڈنگ کی نوکری میں یومیہ آٹھ یورو کماتا ہے جب کہ بس ٹکٹ بیچ کر وہ یومیہ ستر یورو تک کما لیتا ہے۔
ایک دوسرے کی مدد
بزازلی کا تاہم کہنا ہے کہ وہ اپنے نئے کاروبار پر فخر نہیں کرتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ضرورت مند مہاجرین، بالخصوص بچوں والے خاندانوں کو مفت بس سروس بھی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’میں بھی کبھی مہاجر تھا۔ مہاجرین کے لیے بس سروس مفت ہونی چاہیے۔ یورپ مہاجرین کی مدد کے لیے سربیا کو مالی امداد دے رہا ہے، مگر ہماری حکومت کچھ زیادہ نہیں کر رہی۔‘‘
طلب و رسد
مہاجرین کے کیمپوں کے قریب دکانوں کا کاروباری وقت بھی بڑھ گیا ہے۔ روزانہ آٹھ سے دس ہزار مہاجرین سربیا آ رہے ہیں۔ پریسیوو میں اشیائے خور و نوش کی دکانیں اور ریستواران گاہکوں سے بھرے پڑے ہیں، اور بعض دکان داروں نے قیمتیں دگنی، تگنی کر دی ہیں۔ بزازلی کا کہنا ہے، ’’میں نے آج تک سربیا میں اتنا مہنگا ہیم برگر فروخت ہوتے نہیں دیکھا۔‘‘
سِم کارڈز سے لے کر ریڑھی تک
جو پہلی چیز مہاجرین یورپ آ کر خریدتے ہیں وہ موبائل فون کا سِم کارڈ ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت انہیں اپنے وطن میں رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے پڑتی ہے۔ اس باعث مہاجرین کے کیمپوں میں ’پری پیڈ‘ سِم کارڈ بیچنے والوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کی بھی جو ریڑھیاں لیے عمر رسیدہ مہاجرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، جیسا کہ اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
جوتا فروش
یورپ میں سردی تقریباً آ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مہاجرین کو گرم اور مضبوط جوتوں کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ ایسے میں جوتے بیچنے والے سربیائی باشندے کہاں پیچھے رہتے!
دستاویزی ضروریات
مہاجرین کو یورپی ممالک میں رجسٹر کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے کوائف اکھٹے کیے جا سکیں۔ پریسیوو میں موجود ایک رضاکار دانیالا گابیرئل کے مطابق بس ڈرائیور کروشیا جانے والے مہاجرین سے رجسٹریشن سے متعلق دستاویز حاصل کر لیتے ہیں جنہیں وہ بھر بعد میں ان مہاجرین کو بیچتے ہیں جو لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے۔
رشوت خوری
بزازلی تسلیم کرتا ہے کہ اس کو پریسیوو کے مہاجر کیمپ کے باہر بس ٹکٹ بیچنے کے لیے پولیس کو ہفتے کے سو یورو دینا پڑتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، ’’ان کو اگر وہ دے دو جو وہ چاہتے ہیں تو وہ آپ کو تنگ نہیں کرتے۔‘‘ بہت سے افراد نے ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی پولیس کو رشوت کھلاتے دیکھا ہے۔ تاہم ایک رضاکار کا کہنا ہے، ’’اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام پولیس والے رشوت لیتے ہیں۔‘‘