زرداری کے صدارتی اور دیگر اختیارات ، موضوع سخن
29 جنوری 2009پاکستان کے آئین کے مطابق سربراہ حکومت وزیر اعظم، جبکہ صدر فیڈریشن کا نمائندہ ہوتا ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں پارلیمانی نظام میں فیڈریشن کے نمائندے کی علامت کے طور پر صدر پارٹی رکنیت سے مستعفی بھی ہو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں بے نظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے بعد سے حالات نے جو رخ اختیار کیا اس کے تحت آصف علی زرداری بظاہر متوقع طور پر 9ستمبر کو صدر بنے اور عہدے سنبھالنے کے بعد بھی نہ صرف پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط کر رہے ہیں بلکہ عام تاثر یہ ہے کہ وہ اصل وزیر اعظم کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔ ان کے اکثر فیصلے اور غیر ملکی مندوبین سے کئی ملاقاتیں بھی دفتر خارجہ اور وزیر اعظم ہائوس سے بالا بالا ہوتی ہیں۔ آئینی کردار کے اس تضاد پر مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی کیپٹن صفدر کا کہناہے کہ ’’سارے لوگوں نے اپنی توجہ کا مرکز ایوان صدر کو سمجھ لیا ہے اور وہ اصل پارلیمنٹ جس کو عوام نے طاقت دے کر بھیجا ہے ان کو اپنی طاقت کو منوانا پڑے گا ‘‘ انہوںنے کہا’’ جب تک پارلیمنٹ با اختیار نہیں ہو گی، پورے اختیارات کے ساتھ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کام نہیں کرے گی ان بحرانوں سے نہیں نکلا جائے گا۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے سینیٹر دلاور عباس کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اگر اختیارات ہاتھ میں لئے تو وہ کم از کم کسی جماعت کے صدر نہیں تھے۔’’یہاں پر تو جو پارٹی کا لیڈر ہے وہ ہی اب صدر ہو گیا ہے اور اب اسی شخصیت میں تمام چیزیں مرتکز ہیں اور یہاں وزیر اعظم بے اختیار حالت میں بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فوزیہ وہاب صدر زرداری کے کردار کے حوالے سے اپوزیشن ، ارکان اسمبلی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیںکہ ’’میاں صاحب اپنی مرضی سے جو چاہے کہہ دیں، ان کا اصل مسئلہ تو پنجاب حکومت تھی اب پنجاب حکومت تو ان کے پاس ہے ان کی حکومت وہاں بنی ہوئی ہے جب تک وہ قائم ہے ان کو کوئی فکر نہیں ہے اور اس طرح کے تماشے چلتے رہیں گے ‘‘۔
صدر کی طرف سے پارٹی امور پر گرفت مضبوط کرنے کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی بہن فریال تالپور کو ارکان اسمبلی کے ساتھ صلاح مشوروں کا فریضہ سونپا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری فریال تالپور اور ان کے شوہر کو بغیر کسی باقاعدہ عہدے کے پارٹی امور کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔