Record Number of Refugees
20 جون 2012اس صورت حال کے تناظر میں ڈوئچے ویلے کی ہیلے ژیپیسن (Helle Jeppesen) نے اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے یو این ایچ سی آر (UNHCR) کی ترجمان میلیسا فلیمنگ (Melissa Fleming) سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ مہاجرین کی تعداد انتہائی پریشان کن حد تک بڑھ چکی ہے اور سن دو ہزار گیارہ میں آٹھ لاکھ کے قریب افراد اپنے ملکوں کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں داخل ہوئے۔
میلیسا فلیمنگ کے خیال میں اس سے بھی زیادہ پریشان کن وہ چار لاکھ لوگ ہے جو اپنے ملکوں ہی میں پرتشدد تنازعات کی وجہ سے نقل مکانی اور بیدخلی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کی ترجمان کا کہنا ہے کہ پرتشدد تنازعات ہی اس وقت دنیا بھر میں مہاجرت کی بنیادی وجہ ہیں۔ فلیمنگ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پرانے تنازعات حل نہیں ہوئے اور نئے جنم لے رہے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق عراق میں مہاجرین کے لیے صورت حال تبدیل ہو گئی ہے اور یہ ملک پناہ گزینوں کے لیے غیر محفوظ ہے اور دوسری جانب شام اپنے ملک کے اندر مہاجرت پر مجبور افراد کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کی زیادہ تر تعداد ترقی پذیر ملکوں میں پہنچ کر خود کو اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ کروا رہی ہے اور ان ملکوں میں بعض انتہائی غریب ملک بھی ہیں۔ میلیسا فلیمنگ نے اس مناسبت سے بتایا کو پاکستان نے سترہ لاکھ افغان باشندوں کو پناہ دی یا پھر کینیا کی مثال لی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ کینیا کا تیسرا بڑا شہر اصل میں ایک ریفیوجی کیمپ ہے اور اس میں پانچ لاکھ سے زائد پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کی ترجمان نے پاکستان اور کینیا جیسے ملکوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان ملکوں نے کم از کم اپنی سرحدیں تو ایسے مجبور افراد کی میزبانی کے لیے کھلی رکھیں اور یہ انتہائی اہم ہے۔
پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے ملکوں کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے خاطر خواہ امداد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ اس مناسبت سے یو این ایچ سی آر کی ترجمان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی توجہ مسلسل اس طرف دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں ڈونر ممالک اور ادارے اس طرف توجہ دیں گے۔ یورپ میں تارکین وطن کی آمد کے حوالے سے میلیسا فلیمنگ کا کہنا تھا کہ یورپ میں مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے ایک باقاعدہ سسٹم موجود ہے۔ اس طریقہٴ کار کے مطابق پہلے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ ریفیوجی نے سب سے پہلے کس ملک میں رپورٹ کیا ہے اور وہیں وہ سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے۔ ہر ملک کی مختلف ترجیحات ہیں مثلاً اگر ایک صومالی یونان پہنچ کر پناہ کی درخواست کرتا ہے تو اس کی منظوری کے انتہائی کم چانسز ہیں جب کہ اگر وہی صومالی جرمنی پہنچ کر پناہ کی درخواست کرتا ہے تو اس کے امکانات خاصے زیادہ ہیں۔
Helle Happesen (ah / aq)