دمشق کے نواح میں شدید لڑائی، بیسیوں ہلاکتیں
24 نومبر 2013بیروت سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں زیادہ تر غوطہ کے علاقے اور اس کے گرد و نواح میں ہوئیں۔
شامی اپوزیشن کے ذرائع کے مطابق دمشق کے یہ نواحی علاقے حکومت مخالف جنگجوؤں کے کنٹرول میں ہیں اور صدر اسد کی حامی سکیورٹی فورسز نے طویل عرصے سے ان علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے آج اتوار کے روز بتایا کہ غوطہ کے علاقے میں ہونے والی ان جھڑپوں میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اطراف کو شدید جانی نقصان پہنچا اور کم از کم 75 افراد مارے گئے۔
غوطہ کا علاقہ دمشق کے مشرق میں واقع ہے، جہاں گزشتہ رات اپوزیشن کے مسلح باغیوں اور اسد حکومت کے فوجیوں کے مابین خونریز جھڑپیں مسلسل ہوتی رہیں۔ حکومتی دستوں کی طرف سے اس علاقے کا محاصرہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔
رامی عبدالرحمان نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جو 75 سے زائد باغی اور فوجی اس لڑائی میں مارے گئے، ان میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے النصرہ فرنٹ کے عسکریت پسند، اسلامک اسٹیٹ آف عراق کے جنگجو، عراق سے آنے والے شیعہ باغی، پچیس کے قریب شام کے سرکاری فوجی اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے وہ شیعہ فائٹر بھی شامل ہیں، جو اسد حکومت کے دستوں کی طرف سے شامی باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں بظاہر دو ایسے شامی میڈیا کارکن بھی شامل ہیں، جو ان جھڑپوں کی کوریج کے لیے علاقے میں موجود تھے۔ غوطہ کا علاقہ دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جڑا ہوا ہے اور اس علاقے کو شامی باغی اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ دمشق میں اسد حکومت کے لیے ‘قریبی فوجی خطرہ‘ بنے رہیں۔
سرکاری میڈیا میں ان ہلاکتوں اور جھڑپوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی دوران خبر ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ اگر غوطہ میں جمعے کے روز باغیوں کی مسلح کارروائی کے آغاز سے اب تک کی ہلاکتوں کو دیکھا جائے تو یہ تعداد 160 سے زائد بنتی ہے۔
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق جمعے سے لے کر اب تک اس علاقے میں سو کے قریب باغی جنگجو مارے جا چکے ہیں جبکہ اسد حکومت کی فورسز کے ہلاک ہونے والے ارکان کی تعداد بھی 60 سے زیادہ بنتی ہے۔