دمشق کے بعد حَلب میدان کارزار
22 جولائی 2012شامی دارالحکومت دمشق میں حکومت کے ساتھ جھڑپوں کے بعد اب سب سے بڑا شہر حَلب بھی باغیوں اور سرکاری فوج کی جھڑپوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ حَلب میں افراتفری اور شدید کشیدگی ہے۔ شام کے سب سے گنجان آباد شہر میں سنگین جھڑپوں کی وجہ سے نقل مکانی کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں کو شہروں تک پہنچنا اور سرحدی مقامات پر باغیوں کے قبضے سے حکومتی کنٹرول میں کمی کا عندیہ ملتا ہے۔ ماہرین کے بقول حَلب میں مسلح کارروائی سے باغیوں نے اسد حکومت کے لیے مزید پریشانی پیدا کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق شہر میں سرکاری دستوں اور فری سیریئن آرمی کے مابین گھمسان کی جنگ کے باعث اب تک ہزاروں افراد شہر چھوڑ چکے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مہاجرت کا عمل اس وقت شروع ہوا جب فوج نے شہر میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر بمباری کرنے کا اعلان کیا۔ حَلب شام کا اہم کاروباری شہر ہے اور تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے بڑی تعداد میں نقل مکانی بھی یہیں سے ہوئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق جمعرات اور جمعے کے دوران تقریباً تیس ہزار شامی باشندے لبنان ہجرت کر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دارالحکومت دمشق میں بھی شدید لڑائی کی اطلاعات ہیں۔
حَلب میں حکومت مخالف کمیٹیوں کے ایک سرگرم کارکن محمد سعید نے اسکائپ کے ذریعے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بالاخر حکومت مخالف مسلح تحریک اب حَلب پہنچ گئی ہے۔ سترہ ماہ کے دوران یہ شہر واضح طور پر اسد حکومت کا حامی دکھائی دیتا تھا اور شہر کے حالات بظاہر گہری کشیدگی سے عبارت نہیں تھے۔ اس شہر میں حکومت مخالف مظاہرے ضرور سامنے آ چکے ہیں مگر ان میں مسلح پہلو نہیں تھا۔ سعید کے مطابق کچھ درجن فری سیریئن آرمی کے مسلح باغیوں نے ملک کے کاروباری مرکز میں داخل ہو کر سرکاری فوج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز کر دیا ہے۔ شہر کے مرکز اور نواحی علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دمشق میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جھڑپوں سے حکومت واضح طور پر دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور دکھائی دے رہی تھی اور اب حَلب میں مسلح ایکشن سے حکومت کو مالی اور سماجی اعتبار سے پریشانی کا سامنا ہے اور بڑے شہروں میں باغیوں کی کارروائیاں کامیاب حکمت عملی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ دمشق میں جھڑپوں کے دوران ایک خود کش حملے میں حکومت کی چار انتہائی اہم شخصیات بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ اس مناسبت سے اگلے ایام انتہائی اہم خیال کیے جا رہے ہیں کہ اسد حکومت کس طرح اہم شخصیات کی ہلاکتوں کے نقصان سے ابھرتی ہے۔
دمشق کے بعد حَلب شہر میں لڑائی پر اسد حکومت کو پوری طرح فوکس کرنا پڑ رہا ہے تو اس دوران باغیوں نے تیسرے سرحدی مقام پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ عراق اور شام کی سرحد پر واقع سرحدی قصبے پر عملاً کنٹرول حاصل کرنے کے حوالے سے عراق کے صوبے نینوا کے گورنر اثیل الجائفی نے بھی بتایا ہے۔ یہ مقام عراقی قصبے ربیعہ کے سامنے ہے۔ اس سے قبل باغیوں نے جمعرات کے روز عراقی قصبے قائم کے سامنے واقع سرحدی مقام پر قبضے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ترکی کے ساتھ شام کی ملحقہ سرحد کے ایک سرحدی علاقے پر بھی باغیوں نے قابض ہونے کا اعلان کیا تھا۔
ah/ai (AP, Reuters)