دلائی لاما دورہء تائیوان پر تائی پے پہنچ گئے
31 اگست 2009تائی پے میں ایک صدارتی ترجمان کے مطابق ینگ جیو نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ چین کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی پیدا نہ ہو۔ ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ دلائی لاما اور تائیوان کے صدر کے مابین کسی قسم کی کوئی ملاقات نہیں ہوگی۔ دلائی لاما کو صرف مذہبی احترام اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر تائیوان کے دورے کی اجازت دی گئی ہے تا کہ وہ حالیہ تباہ کن سمندری طوفان سے متاثرہ خاندانوں اور افراد کی دلجوئی کرسکیں۔
چین اور تائیوان کے باہمی تعلقات میں گزشتہ ایک سال سے کافی بہتری آئی ہے۔ یہ بہتری صدر ماینگ جیو کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بہت نمایاں ہو چکی ہے۔ اس ایک سال کے دوران بیجنگ اور تائی پے کے مابین باہمی تجارت کو فروغ دینے کےکئی معاہدے طے ہوئے اور گذشتہ جمعہ کے روز ہی چین نے16 فضائی کمپنیوں کو باضابطہ طور پر تائیوان کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔
چین کے اس اقدام سے اندازہ لگایا جا رہا ہےکہ دلائی لاما کا دورہ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ تبتیوں کے روحانی پیشوا اتوار کو رات گئے تائیوان کے دارالحکومت تائی پے پہنچیں گے۔
تائی پے میں چینی کونسل برائے پالیسی سے منسلک اینڈریو ینگ کے بقول جہاں تک دلائی لاما کے دورے کا تعلق ہے تو چین کو تائیوان کے صدر پر پوا بھروسہ ہے۔ اس کے باوجود بیجنگ میں چینی قیادت اس جملہ صورتحال کا بغور جائزہ لےگی۔ اینڈریو ینگ نے مزید کہا کہ اگر دلائی لاما نے یہ دورہ تبت میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اپنی مہم کے حق میں استعمال کیا تو چین کا منفی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔
چین نے دلائی لاما کو مدعو کرنے پر تائیوان میں اپوزیشن جماعت کو تنقید کا نشانہ تو بنایا ہے لیکن ملکی صدر پر کسی قسم کی تنقید سے اجتناب کیا ہے۔ تائیوان میں اپوزیشن کی پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی نے چین کی اس تنقید کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ حکومت کو اس مسئلے میں دخل دینےکا کوئی حق نہیں ہے۔
دلائی لاما اس سے قبل 1997ء اور2001ء میں بھی تائیوان کے دورے کر چکے ہیں۔ ان کا یہ نیا دورہ پانچ روزہ ہو گا اور اس دوران وہ زیادہ تر وقت جنوبی تائیوان کے اس علاقے میں گزاریں گے، جہاں گزشتہ دنوں سمندری طوفان موراکوٹ نے زبردست تباہی مچائی تھی۔
یہ سمندری طوفان تائیوان میں پچھلی نصف صدی میں آنے والا سب سے تباہ کن طوفان ثابت ہوا تھا جس کے نتیجے میں قریب 570 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک