’دبئی مرینا‘ کروڑ پتیوں کا علاقہ
7 دسمبر 2015دبئی میں مرینا کا صحرائی علاقہ دنیا کے ان چند ايک ہی علاقوں ميں سے ايک ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ تعمیراتی شاہکار میں تبدیل ہوا ہے۔ اگر اس علاقے کو تعمیراتی معجزہ کہا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔ صرف پندرہ برس پہلے یہ صحرائی علاقہ ویران ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں کی بلند و بالا عمارتیں بادلوں سے بھی اوپر سر نکالے نظر آتی ہیں۔
اس علاقے میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی اونچی عمارتیں ایستادہ ہیں اور ان عمارتوں کے سامنے پچاس ملین مربع فٹ پر مصنوعی نہریں پھیلی ہوئی ہیں، جہاں نہ صرف عرب بلکہ دنیا بھر کے امراء نے اپنی لگژری کشتیاں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ عرب شہزادوں اور دنیا کے دیگر امراء کی شاميں رنگین بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس علاقے کی بہت سی عمارتیں امریکی شہر ’’من ہیٹن‘‘ کی طرز پر تعمیر کی گئی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ دبئی مرینا کو مڈل ایسٹ کا ’من ہیٹن‘ کہا جاتا ہے۔
رواں برس اس علاقے میں بارہ ہزار چار سو مربع فٹ کے ایک اپارٹمنٹ کی قیمت 56 ملین ریال ( پندرہ عشاریہ پچیس ملین ڈالر) رکھی گئی تھی۔ لیکن من ہیٹن کے برعکس دبئی میں سارا سال سورج چمکتا ہے اور سردیوں میں اس کا درجہ حرارت دن کے وقت چوبیس سیلسیس تک رہتا ہے۔ ہفتے کے اختتام پر پانی میں سفر کرتی ہوئی مہنگی کشتیوں پر حسن اور شراب سے لبریز پارٹیاں ہوتی ہیں جبکہ بنائی گئی نہروں کے کناروں پر واقع ریستوران، کلب اور بارز مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ مرینا متحدہ عرب امارات کا ایک ایسا ماڈرن علاقہ ہے، جہاں غیر ملکیوں کی تعداد مقامیوں سے زیادہ ہے۔
ساحل پر اور نہروں کے کناروں پر چہل قدمی کرتے ہوئے خاندانوں اور بچوں کے لیے بھی تفریح کا سامان موجود ہے۔ اسٹریٹ آرٹسٹوں کی پرفارمنس قابل دید ہوتی ہے جبکہ بچے جھولوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
غروب آفتاب کے وقت، جب سورج کی تپش کم ہو جاتی ہے، لوگ جاگنگ کرتے ہیں اور سائیکلوں پر باہر نکلتے ہیں۔ دنیا کی بلند ترین رہائشی عمارت برج الأميرہ بھی اسی علاقے میں ہے جبکہ مرینا 101 بھی اسی علاقے میں تعمیر کی جا رہی ہے، جس کی بلندی ایک ہزار چار سو سترہ فٹ ہو گی۔