داعش کے خلاف ٹرمپ کے ٹھوس اقدامات تاحال نظر نہیں آئے، اسد
11 مارچ 2017لبنانی دارالحکومت بیروت سے ہفتہ گیارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ وعدہ تو کیا تھا کہ وہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست سے دوچار کر دیں گے، تاہم ابھی تک ان کی طرف سے کیے گئے ایسے کوئی بھی ’ٹھوس اقدامات‘ دیکھنے میں نہیں آئے۔
بازیابی کے بعد الباب دمشق کے حوالے نہیں کیا جائے گا، ترکی
آستانہ مذاکرات ناکام ہوئے تو لڑائی جاری رہے گی، شامی باغی
’شام میں اسرائیلی فوج کا حملہ‘، دمشق کا شدید ردعمل
ساتھ ہی بشار الاسد نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے حال ہی میں اپنے جو فوجی شام کے ریاستی علاقے میں تعینات کیے ہیں، ان کی حیثیت اس لیے مداخلت یا چڑھائی کر دینے والے دستوں کی ہے کہ اس سلسلے میں دمشق میں شامی حکومت سے کوئی اجازت طلب نہیں کی گئی تھی۔
چینی نشریاتی ادارے ’فینکس‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں شامی صدر نے کہا، ’’اصولی طور پر میں ابھی بھی اس بات کا امکان دیکھتا ہوں کہ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے لیکن عملی طور پر اس سلسلے میں ابھی تک کچھ دیکھنے ہی میں نہیں آیا۔‘‘
بشار الاسد نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدے کیے تھے کہ وہ داعش کو شکست دے دیں گے، تو یہ بات ایک حوصلہ افزا موقف تھا، تاہم ’’ٹرمپ کی طرف سے ابھی تک اس جذباتی بیان کو عملی شکل دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔‘‘
اس انٹرویو میں جب شامی صدر سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے نزدیک امریکا یا امریکی قیادت میں بین الاقوامی عسکری اتحاد شام میں داعش کے خلاف کافی کارروائیاں کر رہا ہے، تو بشار الاسد نے کہا، ’’امریکی حمایت سے شام میں صرف چند ایک بار ہی داعش کے خلاف فوجی حملے کیے گئے ہیں اور وہ بھی مقامی نوعیت کے۔‘‘ شامی صدر نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ ان باتوں پر عمل بھی کرے گی، جو ہم سب نے سنی ہیں۔‘‘
شام میں امن سے پہلے عبوری دور میں اسد کی شمولیت ناممکن، ترکی
حلب پر حکومتی قبضہ، بشارالاسد حکومت کے لیے بڑی کامیابی
حلب شہر کے قدیمی حصے پر شامی فوج کا کنٹرول
شمالی شام کے شہر منبج کے قریب امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر اسد نے کہا، ’’کوئی بھی ایسے غیر ملکی دستے جو دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر شام میں داخل ہوں گے، ان کی حیثیت فوجی مداخلت کاروں ہی کی ہو گی اور ایسا کوئی بھی اقدام مثبت یا مددگار ثابت نہیں ہو گا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق اپنے اس انٹرویو میں شامی صدر نے یہ بھی کہا کہ شامی فوجی دستے داعش کے زیر قبضہ شہر رقہ کے بہت نزدیک پہنچ چکے ہیں اور اس شہر کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے سے چھڑانا دمشق حکومت کی اولین عسکری ترجیحات میں شامل ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بشار الاسد نے کہا کہ دمشق حکومت شام میں موجود ایغور دہشت گردوں کے بارے میں بیجنگ حکومت کے ساتھ انٹیلیجنس کی سطح پر اپنا ’انتہائی اہم تعاون‘ جاری رکھے ہوئے ہے۔