داعش کے خلاف جنگ، اقوام متحدہ میں متفقہ قرارداد منظور
21 نومبر 2015امریکا میں نیو یارک سے ہفتہ اکیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس قرارداد میں عالمی ادارے کی سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کے رکن تمام ملکوں کو یہ ’اختیار‘ دے دیا ہےکہ وہ عسکریت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کے خلاف جنگ میں ’تمام ضروری اقدامات‘ کریں۔
اس قرارداد کا مسودہ فرانس نے پیش کیا تھا اور سلامتی کونسل میں یہ مسودہ پیرس میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں کے محض ایک ہفتے بعد پیش کیا گیا تھا، جن میں بیک وقت کیے گئے کئی حملوں میں تیرہ نومبر کے روز کم از کم 129 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس قرارداد کی منظوری کے بعد فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے سکیورٹی کونسل کی طرف سے پیرس کی اس تجویز کی متفقہ حمایت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پوری عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے خاتمے کے لیے خود کو مکمل اور مؤثر طور پر حرکت میں لائے۔
قرارداد کی منظوری کے بعد فرانسسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس نے کہا کہ اب یہ اقوام متحدہ کی تمام رکن ریاستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں کامیاب نتائج کے لیے راستے تلاش کریں، چاہے وہ عسکری ذرائع سے حاصل کیے جائیں یا سیاسی کوششوں کے ذریعے، لیکن جن کی مدد سے داعش کی خونریزی اور دہشت گردی کو روکا جا سکے اور اسے مالی وسائل کی ترسیل منقطع کی جا سکے۔
اے ایف پی کے مطابق سلامتی کونسل نے یہ قرارداد منظور تو کر لی ہے، تاہم اس کو عالمی ادارے کی سطح پر داعش کے خلاف کسی فوجی مہم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس قرارداد میں عالمی ادارے کے منشور کے اس ساتویں باب کی کسی شق کو استعمال میں لانے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جس کے تحت اقوام متحدہ کی طرف سے باقاعدہ فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
سلامتی کونسل میں رائے شماری کے بعد برطانیہ نے کہا کہ اس قرارداد کی منظوری اقوام متحدہ کی رکن تمام ریاستوں کو یہ دعوت دیتی ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہو جائیں۔