خواتین کے ساتھ ہونے والا تشدد، انقرہ حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی
28 اپریل 2011اس سلسلے میں ترکی کے انصاف کے اداروں اور اسلام پسند حکمران پارٹی AKP کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک نیوز سائٹ BIAnet کے مطابق سال رواں فروری اور مارچ کے مہینے میں 52 خواتین اپنے شوہروں کی زیادتیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوئیں، جبکہ گزشتہ برس ایسی خواتین کی تعداد 217 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے 27 فیصد خواتین ایسی تھیں جنہیں اُن کے شوہروں نے اس لیے ہلاک کر دیا کہ وہ طلاق لینا چاہتی تھیں۔
2002 ء سے 2009 ء کے درمیان قتل کے ایسے کیسز جن میں خواتین جنہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہلاک کیا گیا کی تعداد میں 14 گنا اضافہ ہوا۔ یہ اعداد و شمار وزارت انصاف کی طرف سے سامنے آئے ہیں تاہم ان کیسز کے رونما ہونے والے حالات اور ان جرائم کے مرتکب انسانوں کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
حُلیہ گُلبہار حقوق نسواں کی ایک چوٹی کی سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کی صورتحال ’جنس کُشی‘ کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ گلبہار کا کہنا ہے کہ ترکی کے پدر سری معاشرے میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کی روایت قدیم ہے۔ یہاں ایک عرصے سے غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں اضافہ موجودہ قدامت پسند پارٹی AKP کی طرف سے فرسودہ اقدار کو فروغ دینے کی کوششیوں کے سبب ہو رہا ہے۔ حقوق نسواں کے لیے سرگرم حُلیہ گُلبہار کا ماننا ہے کہ ترک حکومت میں معاشرے میں پائے جانے والے عورتوں کے ساتھ تشدد کے رواج کو ختم کرنے کی خواہش ہی نہیں پائی جاتی، نہ ہی وہ ان مسائل کے خاتمے میں سنجیدہ ہے۔
گُلبہار نے اس اہم مسئلے کی ایک بڑی وجہ معاشرے کے چند حلقوں کا وہ پروپیگنڈا قرار دیا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کو تخلیقی طور پر برابر نہیں سمجھا جاتا ہے۔
ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے ایک بار کہا تھا کہ حقوق نسواں کے لیے سرگرم خواتین کی حیثیت حاشیائی ہے۔ اردوان کو گزشتہ سال بہت زیادہ تنقید کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا تھا جب انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا ’ مرد اور عورت برابر نہیں ہو سکتے، لیکن یہ ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں‘۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت : افسر اعوان