حکمران اتحاد میں پھوٹ، اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان
3 دسمبر 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے تل ابیب سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اپنی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے وسیع تر عوامی مینڈیٹ کے متمنی ہیں، جس کے لیے انہوں نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔
نیتن یاہو نے منگل کے دن اپنے ایک نشریاتی خطاب میں کہا کہ انہوں نے اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ یائیر لاپیڈ اور وزیر انصاف زیپی لیونی کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ دو مختلف اعتدال پسند سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں سیاستدان نیتن یاہو کی پالیسیوں کے بڑے ناقد بن کر ابھرے ہیں۔
نیتن یاہو نے ان وزراء پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ’حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی کوشش کی ہے اور یہ کہ وہ حکمران اتحاد کے اندر اپوزیشن برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی سبب وہ حکومت تحلیل کرتے ہوئے جلد از جلد انتخابات کرانے کے خواہشمند ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو کے اس اعلان کے نتیجے میں اسرائیل میں آئندہ الیکشن دو سال قبل ہی منعقد کرائے جائیں گے۔ متوقع طور پر یہ انتخابی عمل اگلے برس کے اوائل میں ممکن ہو سکے گا۔
موجودہ حکمران اتحاد نے 2013ء میں اقتدار سنبھالا تھا اور اسے شروع سے ہی اندرونی اختلافات کا سامنا تھا۔ اگرچہ غزہ کی پچاس روزہ جنگ کے دوران نیتن یاہو کو اپنے اتحادیوں کا مکمل اعتماد و حمایت حاصل ہو گئے تھے لیکن ملکی بجٹ، امریکی تعاون سے شروع ہونے والے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی ناکامی، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری اور فلسطینیوں کے حملوں کو روکنے جیسے مسائل کے علاوہ مہنگائی اور بہتر معیار زندگی جیسے معاملات پر بھی وزیر اعظم کو اتحادی جماعتوں کی طرف سے مسلسل تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
حکمران اتحاد میں اس وقت اختلافات شدید ہو گئے تھے، جب نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے آئینی ترمیم کے ذریعے اسرائیل کو ’ایک یہودی ریاست‘ قرار دینے کی کوشش شروع کی۔ اگرچہ 1948 کےاعلان آزادی میں اسرائیل کو ایک یہودی ریاست ہی قرار دیا گیا تھا لیکن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسے آئینی درجہ دیا جانا چاہیے تاکہ ملک کے دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیا جا سکے۔
تاہم اس ترمیم کے ناقدین کے مطابق اس سے ملک کی جمہوری اقدار کو نقصان پہنچے گا جبکہ عرب شہریوں کے بعض حقوق بھی خطرے میں پڑ جائیں گے۔ سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی اور یائیر لاپیڈ دونوں نے ہی نیتن یاہو کی اس تجویز پر شدید تنقید کی تھی۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل میں ہونے والی اس تازہ پیشرفت پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا ہے۔ نیٹو وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے برسلز میں موجود کیری نے کہا، ’’لیکن یہ واضح ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیل میں جو بھی حکومت قائم ہو، وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
ابھی یہ واضح نہیں کہ آئندہ انتخابات میں کس اسرائیلی سیاسی پارٹٰی کو ممکنہ طور پر سبقت حاصل ہو گی لیکن دو نیوز ٹیلی وژن چینلز کی طرف سے کرائے گئے جائزوں کے مطابق نیتن یاہو اور سخت گیر نظریات کی حامل ان کی حامی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی پارٹنرز کو ابتدائی برتری حاصل ہے۔