'جہادی جان‘ کی مبینہ ہلاکت کی تحقیقات
16 نومبر 2014''جہادی جان‘‘ شام اور عراق میں سرگرم عمل سنی عسکری تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کا وہ نقاب پوش کمانڈر ہے جسے متعدد بار اس انتہا پسند تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں یرغمالیوں کے سر قلم کرتے دیکھا گیا ہے۔
برطانیہ کے دفتر خارجہ کے مطابق اس بات کی تصدیق کرنا مشکل ہے کہ آیا ’’جہادی جان‘‘ ان امریکی فضائی حملوں میں ہلاک ہو گیا ہے جو کہ گزشتہ ہفتے شامی سرحد کے قریب کیے گئے تھے۔
اس شدت پسند کمانڈر کی ہلاکت کی خبر آج اتوار کے روز ’’دا میل‘‘ اخبار نے شائع کی ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’جہادی جان‘‘ کو القائم میں ایک بنکر پر حملے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ آٹھ نومبر کو ہونے والے اس امریکی حملے کا نشانہ ’’اسلام اسٹیٹ‘‘ کے کمانڈروں کا اجلاس تھا۔ حملے میں تنظیم کے دس کمانڈروں کی ہلاکت اور چالیس کے زخمی ہوئے تھے۔ اخبار کے مطابق یہ وہی حملہ ہے جس میں ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے پراسرار سربراہ اور خود کو مسلمانوں کا خلیفہ کہنے والے ابوبکر البغدادی کی مبینہ ہلاکت کی بھی خبریں موصول ہوئی تھیں۔
'جہادی جان‘ کون؟
''جہادی جان‘‘ کے بارے میں خیال ہے کہ وہ برطانوی شہری ہے جس نے سنی تنظیم ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ میں ’’جہاد‘‘ کی غرض سے شمولیت اختیار کی تھی۔ ’’جان‘‘ نام شہرہء آفاق بینڈ ’’بیٹلز‘‘ کے جان لینن سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔ اس شخص پر الزام ہے کہ اس نے امریکی صحافیوں جیمز فولی اور اسٹیون سوٹلوف اور برطانوی امدادی کارکنوں ڈیوڈ ہینز اور ایلن ہیننگ کو قتل کیا ہے۔
جب برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے آسٹریلیا میں ہونے والے جی ٹوئنٹی ممالک کے اجلاس کے دوران صحافیوں نے ’’جہادی‘‘ کے بارے میں موصول ہونے والی خبروں کے بابت پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ’’اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ میں ’جہادی جان‘ کو اس کے ہاتھوں ہونے والے گھناؤنے کاموں کے حوالے سے انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتا ہوں، تاہم میں میں انفرادی موضوعات یا فضائی حملوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ جو افراد ’’جہاد‘‘ کی غرض سے مشرق وسطیٰ کا رخ کر رہے ہیں اور برطانیہ کو نقصان پہنچانے کا امکان رکھتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ خود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔