1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جہادیوں‘ سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی کوششیں

عاطف بلوچ25 ستمبر 2014

اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے وابستہ دیگر شدت پسندوں کے خلاف عالمی جنگ میں جہاں اہم عرب ممالک سمیت دنیا کی تقریبا پچاس ملک متحد ہو چکے ہیں وہیں ان دہشت گرد گروہوں پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DKys
تصویر: Reuters/Brendan McDermid

شام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے کیے جانے والے تازہ فضائی حملوں کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے مزید بیس جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔ سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعرات کو بتایا کہ یہ حملے شام میں تیل کی ان تنصیبات پر کیے گئے، جہاں عسکریت پسندوں نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔

US Angriffe auf IS Stellungen 23.09.2014
عراق و شام میں جہادیوں پر امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں کے حملے جاری ہیںتصویر: Reuters/Mass Communication Specialist 3rd Class Brian Stephens/U.S. Navy

ان فضائی حملوں کے علاوہ شدت پسندوں کو کمزور بنانے کے لیے عالمی سطح پر کئی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے جنگجوؤں کی بھرتی، چندہ جمع کرنے اور ان کی انتظامی مدد کے علاوہ ان کی نقل و حمل کو محدود بنانے کے لیے بھی اہم فیصلے کیے ہیں۔ قبل ازیں بروز بدھ کو اقوام متحدہ کے تمام ممبران ممالک کی طرف سے منظور کی گئی ایک قرارداد میں بھی ایسے ہی فیصلے کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا، ’’ان دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے بین الاقوامی اتحاد اور کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میزائل سے جنگجو ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن اچھے طرز حکمرانی سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا کہ ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ان پرتشدد انتہا پسندوں کو پنپنے سے روکا جا سکے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اقوام متحدہ کی اس قرار داد پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ان دہشت گردوں کو شام میں پہنچنے اور دوبارہ ہمارے ممالک میں داخل ہونے سے روکنا، ہماری حکمت عملی کا ایک اہم نکتہ ہے۔ اس تاریخی قرار داد کی منظوری، اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے عزم کا اظہار ہے۔‘‘

امریکی صدر نے البتہ یہ بھی کہا کہ صرف یہ قرارداد ہی کافی نہیں ہے۔ اوباما کے بقول وعدے، کاغذی کارروائی، اچھی نیت اور تقریریں کسی ایک دہشت گرد کو بھی نہیں روک سکتے ہیں، اس لیے جو عہد کیا گیا ہے اسے اعمال سے بھی ثابت کرنا ہوگا۔

Rohani Cameron Iran
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ایرانی صدر حسن روحانیتصویر: Irna

عراق و شام میں جہادیوں پر جاری امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں کے حملوں میں ابھی تک برطانیہ شریک نہیں ہوا ہے تاہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ ان کی پارلیمان جمعے کے دن ایک خصوصی سیشن میں اس مہم میں شامل ہونے پر رائے شماری کرے گی۔ ڈیوڈ کمیرون کا کہنا ہے، ’’ہمیں انتہا پسندی کی زہریلی نظریاتی اساس کو شکست دینا ہے، جو دہشت گردانہ خطرات کی ایک اہم وجہ ہے۔ یقینی طور پر انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دینے والی متعدد ویب سائٹس اور مبلغ موجود ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ انتہا پسندی کے نظریات کو مات دینے کے لیے نہ صرف پرتشدد بلکہ انتہا پسندی کی تمام اقسام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے تاریخی ملاقات کے بعد یہ بھی کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری عالمی جنگ میں تہران حکومت بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں