جنرل اسمبلی کی قرارداد کے بعد شام میں جنگ میں مزید شدت
10 دسمبر 2016شام میں تقریباً چھ سال سے جاری جنگ میں فائر بندی کے حوالے سے قرارداد کا مسودہ کینیڈا کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اس رائے شماری کے دوران چھتیس ملکوں نے اپنا حقِ رائے دہی محفوظ رکھا۔ واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی پاسداری لازمی نہیں ہوتی لیکن یہ سیاسی اعتبار سے وزن رکھتی ہیں۔
اسی طرح کی ایک قرارداد چند روز قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی، جس میں شمالی شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں سات روز کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم روس اور چین نے اپنے ویٹو کے ذریعے عالمی سلامتی کونسل میں وہ قرارداد منظور نہیں ہونے دی تھی۔ تب روس نے اپنے اس اقدام کے جواز میں کہا تھا کہ جنگ بندی کے وقفے سے باغیوں اور انتہا پسندوں کو اپنی قوت مجتمع کرنے اور نئے سرے سے صف بندی کا موقع مل جائے گا۔ اسپین، مصر اور نیوزی لینڈ کی جانب سے پیش کردہ اُس قرارداد کی ناکامی کے بعد سے ہی یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب مغربی دنیا اس طرح کی کوئی قرارداد جنرل اسمبلی میں پیش کرے گی، جہاں کوئی ملک اُسے ویٹو نہیں کر سکتا۔
جہاں ایک جانب اقوام متحدہ نے شام میں جنگ بندی کے لیے زور دیا ہے، وہاں شامی فوج نے پورے حلب شہر کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز تر کر دی ہیں اور وہاں مشرقی حلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں کے خلاف نہ صرف زمینی لڑائی میں شدت آ گئی ہے بلکہ فضائی حملے بھی شدید تر ہو گئے ہیں۔ شامی فوج حلب کے تقریباً نوّے فیصد علاقے کو اپنے کنٹرول میں لا چکی ہے اور اُس کی کوشش ہے کہ جلد از جلد اِس پورے شہر پر اُس کا کنٹرول بحال ہو جائے۔
شام کا قریبی حلیف روس گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے شامی افواج کو فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔ جمعے کو نیویارک میں رائے شماری سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سیمنتھا پاور نے کہا، ’یہ رائے شماری روس اور اسد کے لیے اس پیغام کے مترادف ہے کہ وہ یہ قتل و غارت گری بند کر دیں‘۔ اقوام متحدہ میں روسی سفیر وتالی چُرکین نے کہا، ’یہ توقع کرنا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا کہ اس رائے شماری کے نتیجے میں شام کی صورتِ حال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی آ جائے گی‘۔
دریں اثناء امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے دس دسمبر کو بحرین کے دارالحکومت ماناما میں ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن حکومت الرقہ میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف جاری کارروائیوں میں کُرد اور عرب فائٹرز کی مدد کرنے کے لیے مزید تقریباً دو سو امریکی فوجی شام روانہ کر رہی ہے۔ یہ فوجی اُن تین سو امریکی فوجیوں کے علاوہ ہیں، جنہیں امریکا پہلے ہی شام بھیجنے کا اعلان کر چکا ہے۔