1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ عراق کے دورے پر

16 اگست 2014

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر بحران زدہ ملک عراق کا دورہ کر رہے ہیں۔ بغداد میں سرکردہ قائدین کے ساتھ ملاقات کے بعد وہ کرد شہر ایربیل میں ہیں، جہاں جرمن فوج کے طیارے امدادی سامان لے کر پہنچے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CvnO
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائرتصویر: Reuters

آج ہفتے کو بغداد میں اپنے ہم منصب حسین الشارستانی کے ساتھ ایک ملاقات کے موقع پر شٹائن مائر نے کہا کہ عراق کا دورہ کرنے اور وہاں کی حکومت کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کا یہ سب سے مناسب موقع ہے اور اُنہوں نے عراق کو جرمنی کی طرف سے مکمل تائید و حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عراق میں بسنے والے انسان آج کل ایک تباہی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک ملین انسان دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے بچنے کے لیے گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہیں۔

شٹائن مائر نے کہا کہ عراق میں قتل اور ذبح کیے جانے والے انسانوں کی ہولناک تصاویر نے جرمنی سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ایک جرائم پیشہ قاتل گروہ ایک پورے خطّے پر اپنا تسلط جمانا چاہتا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایس کے دہشت گردوں نے شمالی عراق میں سِنجار کے قریب ایک سو یزیدی مردوں کو قتل کر دیا ہے اور وہ بچوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نیم خود مختار کردستان کے سربراہ مسعود برزانی سے ملاقات کر رہے ہیں
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نیم خود مختار کردستان کے سربراہ مسعود برزانی سے ملاقات کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

شٹائن مائر نے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی جانب سے ایک بار پھر وزارتِ عظمےٰ کے عہدے کے لیے امیدوار نہ بننے کے اعلان کو ’روشنی کی ایک کرن‘ قرار دیا۔ جرمن وزیر نے نئے نامزد وزیر اعظم حیدر العبادی کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ دنیا اُن سے بڑی توقعات وابستہ کر رہی ہے کہ وہ مختلف مذاہب اور خطّوں کو ساتھ لے کر ایک مشترکہ حکومت تشکیل دے سکیں گے۔

بغداد کے بعد شٹائن مائر نے کرد شہر ایربیل میں اُس مقام کا دورہ کیا، جہاں جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کی امدادی تنظیم کی جانب سے پناہ گزینوں میں پیکٹ تقسیم کیے جا رہے تھے۔ اس تنظیم کے سربراہ مارٹن کیسلر نے کہا، حالات اتنے خراب ہیں کہ اس خطّے میں مصائب کے شکار انسانوں کو مہینوں بلکہ برسوں تک مدد فراہم کی جانا پڑے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ نامی تنظیم کے شدت پسند مسیحیوں، یزیدیوں اور شیعوں کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند سنیوں کو بھی تعاقب کا نشانہ بنا رہے ہیں اور نیم خود مختار کردستان میں پناہ گزینوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ ایربیل میں شٹائن مائر نیم خود مختار کردستان کے سربراہ مسعود برزانی سے ملاقات کر رہے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نئے نامزد وزیر اعظم حیدر العبادی کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نئے نامزد وزیر اعظم حیدر العبادی کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء جرمن فوج کے طیارے امدادی سامان کی پہلی کھیپ لے کر ایربیل پہنچ گئے ہیں۔ اس مجموعی طور پر چھتیس ٹن امدادی سامان میں ادویات، کمبل اور اَشیائے خوراک شامل ہیں، جنہیں تقسیم کرنے کا کام اقوام متحدہ کی امدادی تنظیمیں انجام دیں گی۔ اِسی وِیک اَینڈ پر جرمنی سے مزید طیارے ایربیل پہنچنے والے ہیں۔

اسی دوران لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں آسل بورن نے یورپی یونین کے چند ایک ممالک کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے کہ شمالی عراق میں برسرِپیکار کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کیے جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ خود کو شام اور عراق تک ہی محدود نہیں رکھے گی بلکہ یہ بہت جلد یورپ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ جرمنی نے ابھی تک کردوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے تاہم اسے خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن میں تنازعات پر تحقیق کرنے والے اوٹفریڈ ناساؤئر نے البتہ شمالی عراق کے کردوں کو مزید ہتھیار دینے سے خبردار کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہے تو نہ صرف تنازعات طوالت اختیار کر جا تے ہیں بلکہ یہ ہتھیار دیگر تنازعات میں استعمال ہونے لگتے ہیں۔

جرمن اخبار ’بلڈ اَم زونٹاگ‘ کے ایک سروے کے مطابق 74 فیصد جرمن شہریوں نے شمالی عراق کے کردوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی مخالفت کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید