جرمنی کے تھوماس باخ انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نئے صدر
11 ستمبر 2013انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نويں صدر کے انتخاب کے ليے رائے شماری دس ستمبر کے روز کميٹی کے ايک سو پچيس ويں سيشن کے اختتام پر ہوئی۔ دو مراحل پر مبنی اس ووٹنگ ميں ’آئی او سی‘ کے رکن ممالک کے نمائندگان نے حصہ ليا۔ رائے شماری کے نتائج کے مطابق انسٹھ سالہ تھوماس باخ کو انچاس ووٹ ملے جبکہ ان کے قريب ترين حريف پورٹو ريکو سے تعلق رکھنے والے رچرڈ کاريون رہے، جن کے حق ميں چھبيس ووٹ ڈالے گئے۔ کميٹی کی صدارت کے منصب کے ليے ديگر اميدواروں ميں سنگاپور کے سر ميانگ کو چھ ووٹ، سوئٹزرلينڈ کے ڈينس اوسوالڈ کو پانچ اور يوکرائن کے سيرگئی ببکا کو چار ووٹ ملے۔
وکالت کی تعليم حاصل کرنے والے تھوماس باخ انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نويں صدر ہوں گے اور وہ بيلجیم کے ژاک روگ کی جگہ يہ ذمہ دارياں سنبھاليں گے۔ اپنے انتخاب کے بعد باخ نے جو پہلے الفاظ کہے وہ کچھ يوں تھے، ’’اف، يہ انتہائی بھروسے اور اعتماد کا نشان ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا، ’’ميں اس ملازمت سے وابستہ ذمہ داريوں سے بخوبی واقف ہوں۔‘‘ تھوماس کے بقول وہ تمام رکن ملکوں کے ليے صدر بننا چاہتے ہيں اور اسی وجہ سے ان کا دل و دروازہ سب کے ليے کھلا ہے۔ اس موقع پر تھوماس باخ نے يہ بھی بتايا کہ ’سوچی 2014ء ونٹر اولمپکس‘ سے جڑا چيلنچ اس وقت ان کے ليے اہم ترين معاملہ ہے۔ باخ سن 1991ء سے آئی او سی کے ساتھ منسلک ہيں۔
جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے ايک بيان ميں اپنے ہم وطن تھوماس باخ کو انٹرنيشنل اولمپک کميٹی کے نويں صدر منتخب کيے جانے پر مبارک باد پيش کی۔
بعد ازاں بارہ برس بعد کميٹی کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے 71 سالہ ژاک روگ کے اعزاز ميں تمام ارکان اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے تاليوں سے روگ کو خيرباد کہا۔ روگ کے دور ميں نہ صرف انٹرنيشنل اولمپک کميٹی ميں استحکام پيدا ہوا بلکہ انہوں نے ڈوپنگ اور سٹے بازی کے خاتمے کے لیےکميٹی کی کوششوں کو بھی تيز تر کيا۔ ان ہی کے دور ميں يوتھ اولمپکس بھی شروع کرائے گئے۔