جرمنی سے گئے ہوئے تقریباً ساٹھ افراد عراق و شام میں ہلاک ہو چکے ہیں، آئینی تحفظ کا وفاقی ادارہ
23 نومبر 2014جرمنی میں آئینی تحفظ کے وفاقی ادارے کے مطابق عراق و شام میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے کے دوران جرمنی سے گئے ہوئے ساٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس ادارے کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن نے بتایا کہ ان میں سے کم از کم نو خود کش بمبار تھے۔ ان کے بقول جرمنی سے تقریباً 550 افراد آئی ایس کا ساتھ دینے کے لیے شام اور عراق کا رخ کر چکے ہیں۔ آئینی تحفظ کے ادارے نے گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران ایسے افراد کی تعداد میں ہونے والے نمایاں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جو آئی ایس میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق شام و عراق سے آئی ایس کے شانہ بشانہ لڑنے کے بعد تقریباً 180 افراد جرمنی واپس پہنچ چکے ہیں۔ حکام غور کر رہے ہیں کہ ان افراد کی نگرانی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
آئینی تحفظ کے ادارےکے سربراہ ہانس گیورگ ماسن سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا آئی ایس جرمنی کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جرمنی بھی امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ایک ہی کشتی کا سوار ہے۔ ان کے بقول صورتحال واقعتاً پریشان کن ہے تاہم خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سلامتی کے سخت انتظامات کے باوجود جرمنی میں حملہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی نائب صدر جو بائیڈن کی ترکی کو اسلام اسٹیٹ کے خلاف کارروائیوں میں شامل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے استنبول میں ترک صدر رجب طیب ایردوان سے چار گھنٹے طویل ملاقات کی۔ اس دوران بائیڈن کا کہنا تھا کہ ترکی کو امریکا کی سربراہی میں آئی ایس کے خلاف بننے والے اتحاد میں اپنے تعاون کو بڑھنا چاہیے۔ دونوں رہنماؤں کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بعد کسی بڑی پیش رفت کا اعلان تو نہیں کیا گیا تاہم بائیڈن نے اس بات چیت کو واضح قرار دیا۔
نائب امریکی صدر کے بقول دونوں ممالک کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن حکام آئی ایس کے خلاف انقرہ حکام کے انتہائی محدود کردار پر اپنی مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ترک صدر کا کہنا تھا کہ انقرہ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات اور تعاون کو پہلے کی طرح مستحکم کرتا رہے گا۔
شامی تنازعہ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے تقریباً 1.6ملین افراد ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ امریکی نائب صدر کے بقول ترکی بہت بڑا انسانی بوجھ برداشت کر رہا ہے۔