’تين سو سے زائد جرمن باشندوں کی جاسوسی جاری،‘ جرمن اخبار
24 فروری 2014يہ تازہ انکشافات جرمن اخبار ’بلڈ ام زونٹاگ‘ ميں اتوار تيئس فروری کے روز شائع ہونے والی ايک رپورٹ ميں کيے گئے ہيں۔ اس رپورٹ کے مطابق امريکی صدر باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جاسوسی ترک کر دينے کے احکامات کے بعد اب امريکا کی قومی سلامتی سے متعلق نيشنل سکيورٹی ايجنسی ( این ایس اے) نے ديگر اعلی جرمن حکام کی جاسوسی تيز تر کر دی ہے۔
’بلڈ ام زونٹاگ‘ کے مطابق اس وقت کُل 320 جرمن شہريوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے، جن ميں اعلی حکام، سياستدان اور اہم کاروباری شخصيات شامل ہيں۔
بلڈ ام زونٹاگ کے مطابق يہ معلومات جرمنی ميں موجود این ایس اے کے ايک اعلی اہلکار کی جانب سے فراہم کی گئی ہيں اور جن افراد کی جاسوسی کی جا رہی ہے، ان ميں سابقہ وزير دفاع اور موجودہ وزير داخلہ تھوماس ڈی ميزيئر بھی شامل ہيں۔
واضح رہے کہ ڈی ميزيئر چانسلر ميرکل کے قريبی ساتھی مانے جاتے ہيں۔ اخبار کی رپورٹ ميں اين ايس اے کے اس اہلکار کے ذرائع سے بتایا گیا ہے، ’’ہميں يہ احکامات ہيں کہ اب جبکہ ہم چانسلر کی براہ راست جاسوسی نہيں کر سکتے، ہم سے کوئی بھی معلومات بچنی نہيں چاہيے۔‘‘
اس رپورٹ کے رد عمل ميں جرمن وزارت داخلہ کے ايک ترجمان نے کہا، ’’جن افراد کے نام نہيں بتائے گئے، ان کی جانب سے ان الزامات پر کوئی بيان جاری نہيں کيا جا رہا۔‘‘
’بلڈ ام زونٹاگ‘ نے اپنی اس رپورٹ ميں صدر اوباما کی مشير برائے سلامتی کائٹلن ہيڈن کے حوالے سے لکھا ہے، ’’ امريکا يہ واضح کر چکا ہے کہ معلومات اسی طرح جمع کی جاتی ہيں جيسا کہ ديگر رياستوں ميں۔‘‘ ہيڈن نے يہ بھی کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے کاروباری معاملات ميں فوائد حاصل کرنے کے ليے کارپوريشنوں کی جاسوسی نہيں کی جاتی۔
نيوز ايجنسی روئٹرز کی جرمن دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن وزير خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر اسی ہفتے جمعرات کے روز امريکا کا دورہ کرنے والے ہيں۔ گزشتہ برس اين ايس اے کے سابقہ کانٹريکٹر ايڈورڈ سنوڈن کی جانب سے جاسوسی سے متعلق انکاشافات، بالخصوص چانسلر انگيلا ميرکل کے ٹيلی فون کی جاسوسی کے تناظر ميں برلن انتظاميہ ايسی کوششوں ميں مصروف ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ ’ نو اسپائی‘ يا جاسوسی مکمل طور پر ترک کر دينے کے کسی سمجھوتے کو حتمی شکل دی جائے۔ البتہ اشٹائن مائر اس حوالے سے خدشات کا شکار ہيں کہ آيا يہ مجوزہ ڈيل مؤثر ثابت ہو سکے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس جاسوسی سے متعلق انکشافات کے سبب امريکا کڑی تنقيد کی زد ميں رہا، جس سبب صدر باراک اوباما نے جنوری ميں يہ اعلان کيا تھا کہ اتحادی اور دوستانہ روابط والے ممالک کے ليڈران کی جاسوسی ترک کر دی جائے گی۔