ترکی کے جنوبی مشرقی علاقے میں کرفیو نافذ
3 نومبر 2015اتوار یکم نومبر کو ترکی میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد ترک سکیورٹی فورسز اور کُرد عسکریت پسند باغیوں کے مابین جھڑپوں میں یہ پہلی ہلاکت ہے۔ ویک اینڈ پر ہوئے الیکشن کے بعد سے ترکی میں سلامتی کی صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔
دریں اثناء ترک فوج نے سرحد پار شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے عسکریت پسندوں کے اڈوں پر پیر کو فضائی حملے کرنے کی تصدیق کی ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں ترکی کی حکمران جماعت ) اے کے پی( جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے دوبارہ پارلیمانی اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ ان نتائج کو صدر رجب طیب ایردوآن کی ایک بڑی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایردوآن نے گزشتہ جولائی میں کردوں کے ساتھ دو سالہ جنگ بندی کے معاہدے کے بے اثر ہو جانے کے بعد کُرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔
منگل کو ترک فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ترک جنگی طیاروں نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے شمالی عراق میں قائم اڈوں پر بمباری کی ہے۔
فوج کے بقول، ’’علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم (پی کے کے) کے ٹھکانوں، دہشت گردوں کی طرف سے استعمال کیے جا نے والے اسلحہ ڈپوؤں اور غاروں پر بمباری کر کے انہیں تباہ کر دیا گیا ہے‘‘۔
بتایا گیا ہے کہ پیر کو اس فوجی آپریشن کا نشانہ ترکی کے عراق کی سرحد کے نزدیک واقع کُرد اکثریتی صوبے حکاری میں قائم کُرد علیحدگی پسند جنگجوؤں کے اڈے کو بنایا گیا۔ اس ترک فوجی آپریشن کا ہدف شمالی عراق کے متعدد علاقے بھی تھے جن میں کوہ قندیل بھی شامل ہے۔
گزشتہ جولائی سے ترک فورسز اور کرد باغیوں کے مابین کشیدگی اور تصادم میں واضح اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ تب ترکی کے ایک سرحدی صوبے سوروچ میں کردوں کے حامیوں پر بم حملے بنے تھے۔ اُس واقعے میں 34 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُس حملے کا الزام انتہا پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ پر عائد کیا گیا تھا۔
کُرد باغیوں نے 1984ء میں جنوب مشرقی ترکی کے علاقے میں وسیع تر خود مختاری کے لیے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔ تب سے اب تک کُرد علیحدگی پسند باغیوں کا یہ بحران 45 ہزار جانوں کے ضیاع کا سبب بن چُکا ہے۔