1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی: نرم خارجہ پاليسی ميں سختی

8 اکتوبر 2012

شام ميں آج حکومتی فوج نے حُمص اور حلب سميت ملک کے کئی علاقوں ميں باغيوں پر شديد بمباری کی ہے۔ اُدھر شام اور ترکی کے درميان گولے باری کے تبادلے سے ايک خطرناک صورتحال پيدا ہونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/16MJz
تصویر: dapd

شام کے ساتھ تنازعے ميں شدت پيدا ہو جانے کے سبب ترکی کی قدامت پسند اسلامی پارٹی اے کے پی کی حکومت کو ايک زيادہ جارح خارجہ پاليسی اختيار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، جس سے علاقے ميں تنازعے کے پھيل جانے کا خطرہ پيدا ہو رہا ہے۔ ترک پارليمنٹ کی طرف سے ضرورت پڑنے پر سرحد پار شام کے خلاف فوجی کارروائی کے ليے حکومت کو ديے جانے والے ايک سال کے اختيار کے اگلے دن وزير اعظم رجب طيب ايردوآن نے کہا:’’ہم جنگ کو پسند نہيں کرتے ليکن ہم جنگ سے زيادہ دور نہيں ہيں۔ ايک مقولہ ہے کہ اگر تم امن کی خواہش رکھتے ہو تو جنگ کی تياری کرو۔‘‘ 

شام سے ملحقہ سرحدی علاقے ميں ترکی کا ايک موبائل ميزائل لانچر
شام سے ملحقہ سرحدی علاقے ميں ترکی کا ايک موبائل ميزائل لانچرتصویر: Reuters

پچھلے ہفتے بدھ کو شامی گولہ باری سے ترکی کے سرحدی قصبے اکچاکل ميں پانچ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے ترک فوج ترک سرزمين پر گرنے والے ہر شامی گولے کا جواب دے رہی ہے۔ شام کا کہنا ہے کہ ترکی ميں گرنے والے گولے شامی باغيوں کے خلاف کارروائی کے دوران غلطی سے ترکی ميں جا گرے تھے۔ ليکن انقرہ اسے جان بوجھ کر کی جانے والی اشتعال انگيزی سمجھتا ہے۔

اس کے بعد سے تقريباً روزانہ ہی شامی اور ترک افواج ايک دوسرے پر گولہ باری کر رہی ہيں۔ ترکی اپنے شام سے ملنے والے سرحدی علاقے ميں مسلسل فوج پہنچا رہا ہے۔ اس سے تنازعے ميں مزيد شدت پيدا ہو نے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ترک وزير خارجہ احمد داؤد اوغلو نے کہا:’’ہم نے يہ قدم جنگ کے ارادے سے نہيں اٹھايا ہے۔ ليکن آئندہ سے جب بھی ترکی پر حملہ ہو گا، اُسے خاموش کر ديا جائے گا۔‘‘

ترک وزير اعظم ايردوآن اور اُن کے نائب بلنت ارنچ
ترک وزير اعظم ايردوآن اور اُن کے نائب بلنت ارنچتصویر: dapd

رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک شہريوں کی اکثريت جنگ کے خلاف ہے اور بہت سے ترک مبصرين اس سے اتفاق کرتے ہيں کہ نہ تو ترکی اور نہ ہی شام جنگ کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سرحد کے ساتھ ساتھ مزيد حملوں کا امکان پريشان کن ہے۔ مبصرين ايک اور تبديلی سے بھی متفکر ہيں: انقرہ کی زيادہ جارح پاليسی شام کے اتحاديوں ايران، عراق اور روس سے بھی ترکی کی کشيدگی بڑھنے کی علامت ہے۔

ترکی کی طرف سے جنگ کی وارننگ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی ’نرم طاقت‘ کی پاليسی اب فوجی دھمکی دينے والی پاليسی ميں تبديل ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی اصل پاليسی یہ ہے کہ وہ خاص طور پر اُن ہمسايہ ملکوں سے سياسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات بڑھانا چاہتی ہے، جو ايک زمانے ميں سلطنت عثمانيہ کے زير حکومت تھے۔ اس نے اس سلسلے ميں مغربی دباؤ کو بھی مسترد کيا ہے۔ ليکن اب ترکی کھل کر شامی حکومت کی مخالفت کر رہا ہے اور ايران اور عراق کی شيعہ حکومتوں سے بھی اُس کے تعلقات اچھے نہيں ہيں۔

S.Ahyan,sas/S.Sinico,aa