ترکی: نرم خارجہ پاليسی ميں سختی
8 اکتوبر 2012شام کے ساتھ تنازعے ميں شدت پيدا ہو جانے کے سبب ترکی کی قدامت پسند اسلامی پارٹی اے کے پی کی حکومت کو ايک زيادہ جارح خارجہ پاليسی اختيار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، جس سے علاقے ميں تنازعے کے پھيل جانے کا خطرہ پيدا ہو رہا ہے۔ ترک پارليمنٹ کی طرف سے ضرورت پڑنے پر سرحد پار شام کے خلاف فوجی کارروائی کے ليے حکومت کو ديے جانے والے ايک سال کے اختيار کے اگلے دن وزير اعظم رجب طيب ايردوآن نے کہا:’’ہم جنگ کو پسند نہيں کرتے ليکن ہم جنگ سے زيادہ دور نہيں ہيں۔ ايک مقولہ ہے کہ اگر تم امن کی خواہش رکھتے ہو تو جنگ کی تياری کرو۔‘‘
پچھلے ہفتے بدھ کو شامی گولہ باری سے ترکی کے سرحدی قصبے اکچاکل ميں پانچ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے ترک فوج ترک سرزمين پر گرنے والے ہر شامی گولے کا جواب دے رہی ہے۔ شام کا کہنا ہے کہ ترکی ميں گرنے والے گولے شامی باغيوں کے خلاف کارروائی کے دوران غلطی سے ترکی ميں جا گرے تھے۔ ليکن انقرہ اسے جان بوجھ کر کی جانے والی اشتعال انگيزی سمجھتا ہے۔
اس کے بعد سے تقريباً روزانہ ہی شامی اور ترک افواج ايک دوسرے پر گولہ باری کر رہی ہيں۔ ترکی اپنے شام سے ملنے والے سرحدی علاقے ميں مسلسل فوج پہنچا رہا ہے۔ اس سے تنازعے ميں مزيد شدت پيدا ہو نے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ترک وزير خارجہ احمد داؤد اوغلو نے کہا:’’ہم نے يہ قدم جنگ کے ارادے سے نہيں اٹھايا ہے۔ ليکن آئندہ سے جب بھی ترکی پر حملہ ہو گا، اُسے خاموش کر ديا جائے گا۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک شہريوں کی اکثريت جنگ کے خلاف ہے اور بہت سے ترک مبصرين اس سے اتفاق کرتے ہيں کہ نہ تو ترکی اور نہ ہی شام جنگ کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سرحد کے ساتھ ساتھ مزيد حملوں کا امکان پريشان کن ہے۔ مبصرين ايک اور تبديلی سے بھی متفکر ہيں: انقرہ کی زيادہ جارح پاليسی شام کے اتحاديوں ايران، عراق اور روس سے بھی ترکی کی کشيدگی بڑھنے کی علامت ہے۔
ترکی کی طرف سے جنگ کی وارننگ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی ’نرم طاقت‘ کی پاليسی اب فوجی دھمکی دينے والی پاليسی ميں تبديل ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی اصل پاليسی یہ ہے کہ وہ خاص طور پر اُن ہمسايہ ملکوں سے سياسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات بڑھانا چاہتی ہے، جو ايک زمانے ميں سلطنت عثمانيہ کے زير حکومت تھے۔ اس نے اس سلسلے ميں مغربی دباؤ کو بھی مسترد کيا ہے۔ ليکن اب ترکی کھل کر شامی حکومت کی مخالفت کر رہا ہے اور ايران اور عراق کی شيعہ حکومتوں سے بھی اُس کے تعلقات اچھے نہيں ہيں۔
S.Ahyan,sas/S.Sinico,aa