بیروت حملے میں سعودی خفیہ ادارے ملوث تھے، حسن نصر اللہ
4 دسمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حسن نصراللہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ انیس نومبر کو بیروت میں واقع ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے حملوں میں سعودی خفیہ ادارے ملوث تھے۔ لبنانی ٹیلی وژن او ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اس شیعہ رہنما نے مزید کہا کہ اس کارروائی کی ذمہ داری القاعدہ سے وابستہ جس جنگجو گروہ نے قبول کی ہے، اس کا امیر سعودی ہے۔ حسن نصر اللہ کے بقول، ’’سعودی عرب کو اپنی ناکامی پر ایران پر غصہ تھا اور یہ حملہ اس تناظر میں کیا گیا ہے۔‘‘ اس حملے کے ایک دن بعد ہی ریاض حکومت نے اسے ’بزدلانہ اور ایک دہشت گردانہ کارروائی‘ قرار دے دیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ حزب اللہ اور ایران دونوں ہی شامی صدر بشار الاسد کے حامی ہیں جبکہ سعودی عرب شام میں اسد کے خلاف فعال جنگجو گروہوں کی مبینہ طور پر مدد کر رہا ہے تاکہ دمشق حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔ ناقدین کے بقول شامی بحران مختلف شکلوں میں خطے پر اثر انداز ہو رہا ہے اور یہ تازہ پیشرفت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دی جا رہی ہے۔
حسن نصر اللہ نے منگل کے دن مزید کہا کہ سعودی عرب خطے کے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی اپنی کوشش میں ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران حکومت گزشتہ کئی برسوں سے ریاض حکومت کو مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے لیکن سعودی عرب نے ہمیشہ ہی انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے شروع سے ہی ایران کو اپنا ایک دشمن سمجھا ہے۔‘‘
حسن نصر اللہ کے بقول سعودی عرب خود کو عرب اور مسلم ممالک کا رہنما بنانے کو کوشش کرتا رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کے کہ تمام مسلم اور عرب ممالک اس کے احکامات بجا لائیں۔
شام میں حزب اللہ کے متنازعہ کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے نصراللہ نے کہا کہ دراصل یہ لبنان کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر شام کا کنٹرول مسلح باغیوں کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے تو لبنان کا کیا مستقبل ہو گا؟ ہمارے جنگجو شام میں باغی گروہوں کے خلاف اس لیے لڑ رہے ہیں تاکہ لبنان کو محفوظ بنایا جائے۔‘‘ حسن نصر اللہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جنگجو شام میں ایران کے کہنے پر نہیں گئے ہیں۔