’’ بہت جلد صنعاء میں ملاقات ہو گی‘‘، علی عبداللہ صالح
17 اگست 2011یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی وطن واپسی کے حوالے یہ کوئی پہلا بیان نہیں ہے۔ جون میں ان کے محل پر ہونے والے ایک حملے میں زخمی ہونے کے بعد وہ علاج کی غرض سے سعودی چلے گئے تھے۔ اس وقت سے اب تک صنعاء انتظامیہ ان کی واپسی کے کئی بیان دی چکی ہے۔ اگر اس مرتبہ صدر صالح اپنےکہے پر عمل کر لیتے ہیں تو اس سے ان کے مخالفین کو شدید مایوسی ہو گی، کیونکہ وہ کافی پر امید ہیں کہ شاید صدر صالح مستقل طور پر سعودی عرب میں ہی قیام کریں گے۔ ساتھ ہی امریکہ کے لیے بھی ان کی وطن واپسی کوئی خوش آئند بات نہیں ہو گی کیونکہ واشنگٹن انتظامیہ بھی چاہتی ہے کہ یمنی صدر عوام کے مطالبات تسیلم کرتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو جائیں۔
اپنے ایک ٹیلی وژن خطاب کا اختتام صدر صالح نے ان الفاظ پر کیا ’’بہت جلد آپ سے صنعاء میں ملاقات ہو گی‘‘۔ سعودی دارالحکومت ریاض کے ایک ہسپتال میں زیر علاج علی عبداللہ صالح کی اس مرتبہ ٹیلی وژن پر جو تصاویر نشر ہوئیں ان میں وہ کافی ہشاش بشاش دکھائی دیے۔ صدر صالح نے اپنے خطاب میں اپوزیشن جماعتوں اور ان کا ساتھ دینے والے قبائل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ’موقع پرست‘ قرار دیا۔
صدر صالح کے بقول حزب اختلاف کی کئی جماعتیں ایسی ہیں، جو اسلام کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ اصل میں انہی جماعتوں نے مذہب کا مذاق اڑایا ہے۔ یمن میں گزشتہ سات ماہ سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اورملک تقریباً خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق یمنی صدر کے لیے یہ ایک بہت ہی مشکل صورتحال ہے کیونکہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا موجودہ حالات میں امریکہ اور سعودی عرب انہیں وطن واپس جانے کی اجازت دیتے بھی ہیں نہیں۔ علی عبداللہ صالح صدارتی رہائش گاہ پر ہونے والے ایک راکٹ حملےمیں شدید زخمی ہو گئے تھے اور انہیں اسی حالت میں سعودی عرب پہنچایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ صرف دو ماہ تک زیر علاج رہیں گے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان