بغداد میں بم دھماکے، 24 افراد ہلاک
20 نومبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یکے بعد دیگرے ہونے والے ان سات بم دھماکوں میں سے چھ کار بم دھماکے تھے۔ آج بدھ کے روز ہونے والے یہ بم حملے پُر رونق علاقوں میں تجارتی مراکز کے قریب ہوئے۔
شعیہ آبادی والے علاقے الصدریہ کے قریب ہونے والے حملے میں چار افراد ہلاک اور چودہ زخمی ہوئے، اسی طرح الکرادہ میں ہونے حملے میں تین افراد ہلاک اور بارہ زخمی ہوئے۔
ان بم دھماکوں کے بعد عراقی دارالحکومت کے اکثر علاقوں کو دھوئیں کی دبیز تہہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے لیے ہر طرف دوڑتی ایمبولینسز کے سائرنوں کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دھماکے کی وجہ سے تباہ ہونے والی عمارات اور گاڑیوں کا ملبہ اور ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا خون اور اعضاء قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہے تھے۔
عراق گزشتہ کچھ مہینوں سے تشدد کی بد ترین لہر کا شکار ہے۔ ان واقعات کو گزشتہ پانچ سال میں ہونے والے سب سے زیادہ خونی واقعات کہا جا سکتا ہے۔
عراق کی شیعہ حکومت القاعدہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے انتہا پسند سنی مسلمانوں کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔
اس سال کے آغاز سے ہی ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں عراقی شہری اسی طرز کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔ عراق میں بڑھتی ہوئی تشدد کی لہر سے یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ کہیں سال 07-2006 والا پرتشدد دور واپس نہ لوٹ آئے، جب ایسے ہی پرتشدد مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری مارے گئے تھے۔
گزشتہ اتوار کو بھی عراق میں اسی طرح کے بم حملے ہوئے تھے، جن میں اکیس افراد مارے گئے تھے۔ سن 2008ء کے بعد سے عراق میں فرقہ ورانہ حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اکتوبر کے مہینے میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ اقوام متحدہ نے عراق کے سیاسی قائدین سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک میں قیام امن کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔