بشار الاسد قدیم مسیحی گاؤں میں
21 اپریل 2014بشار الاسد نے اتوار کو معلولا گاؤں میں مسیحی خاندانوں سے ملاقات کی۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر اسد کم ہی منظرِ عام پر آتے ہیں اور اب وہ ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب اتوار کو ہی کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ایسٹر کے اپنے واعظ میں شام کے تنازعے کے حل کے لیے فریقین پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی راہ اپنائیں۔
شام میں معلولا گاؤں کو مسیحیوں کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے۔ اس گاؤں پر بشار الاسد کے مخالف باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا تاہم شام کی فورسز نے گزشتہ ہفتے کے آغاز پر اس گاؤں کا کنٹرول پھر سے حاصل کر لیا تھا۔ ان فورسز کو لبنان کی حزب اللہ تحریک کے فوجیوں کی مدد حاصل تھی۔
معلولا کے دورے کے موقع پر صدر اسد نے ان مذہبی علامتوں کا جائزہ بھی لیا جنہیں حالیہ لڑائی میں نقصان پہنچا تھا۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اس موقع پر بشار الاسد نے کہا: ’’بدترین دہشت گرد بھی ہماری تہذیب اور وراثت کو مٹا نہیں سکتے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’شام میں تہذیب اور وراثت کے حوالے سے مشہور دیگر مقامات کی طرح، معلولا ہمیشہ اس ظلم اور جہالت کی مزاحمت کرے گا جس کا ہمارے ملک کو سامنا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ مسیحیوں کا دفاع کریں گے جو شام کی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چرچز شام کا ثقافتی ورثہ ہیں اور ان کا تحفظ کیا جائے گا۔
معلولا دارالحکومت دمشق کے شمال مشرق میں تقریباﹰ ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اکثریتی مسیحی آبادی کا علاقہ ہے جس میں سے بیشتر کرائسٹ کی آرامی زبان بولتے ہیں۔
خبر رساں دارے اے پی کے مطابق معلولا کی فتح اسد حکومت کے لیے پروپیگنڈے کا کام کر رہی ہے جس کے تحت وہ خود کو مذہبی اقلیتوں کے محافظ کے طور پر دکھانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب حالیہ گیس حملے کے حوالے سے بھی دمشق حکومت کو الزامات کا سامنا ہے۔ اتوار کو ہی فرانس کے حکام نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسد کی فورسز کے اس حملے میں ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔
خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011ء سے خانہ جنگی جاری ہے جس کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئے۔