بالی میں ہونے والا اجلاس، ڈبلیو ٹی او کے مستقبل کے لیے اہم
3 دسمبر 2013ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے رکن ممالک کے وزراء کا آج منگل تين دسمبر کو شروع ہونے والا یہ نواں اجلاس ہے۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر کسٹم کے نظام کو سادہ بنانا، زرعی سبسڈی اور نسبتاﹰ غریب ممالک کو امداد کی فراہمی جیسے معاملات پر اتفاق رائے تک پہنچنا ہے۔
بین الاقوامی چیمبر آف کامرس کی پیشگوئی ہے کہ اگر بالی میں اس حوالے سے کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ 21 ملین نئی ملازمتوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے روزگار کے زیادہ تر مواقع ترقی پزیر ممالک میں پیدا ہو ں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ 960 بلین ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری کی بھی راہ ہموار ہو گی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بالی میں شروع ہونے والی یہ چار روزہ کانفرنس اگر کامیاب رہتی ہے تو اس سے ایک عرصے سے زیر التوا دوحہ مذاکرات کی بحالی کی راہ بھی ہموار ہو گی جن کا مقصد عالمی تجارت کے لیے یکساں معیارات قائم کرنا ہے۔
تاہم اجلاس میں شریک کئی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ بالی کانفرنس کی ناکامی سے دراصل بطور عالمی تجارتی فورم WTO کی حیثیت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بھارت سمیت بعض ممالک کی جانب سے بالی میں ممکنہ معاہدے پر، جسے بالی پیکج کا نام دیا گیا ہے، تحفظات کا اظہار کیا جا چکا ہے، جس سے کسی معاہدے تک پہچنے کے امکانات غیر یقینی ہیں۔
WTO کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹو آزیواڈو Roberto Azevedo نے اس تجارتی فورم کے 159 رکن ممالک کے نمائندوں پر زور دیا ہے کہ وہ اتفاق رائے تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ WTO کے رکن ممالک کے وزرائے تجارت کی چار روزہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے آزیواڈو کا کہنا تھا، ’’ہم اس معاملے کو کسی اور دن کے لیے اٹھا کر نہیں رکھ سکتے۔۔۔ یہ ابھی ہوگا یا کبھی نہیں۔‘‘
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام 1995ء میں عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد عالمی سطح پر آزادانہ اشیاء کی ترسیل کو ممکن بنانا اور اس حوالے سے مختلف رکن ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے کسی تجارتی تنازعے کو حل کرنا تھا۔ تاہم اب تک اس عالمی فورم کی سب سے بڑی کامیابی يہی ہے کہ يہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔