این آر او کیس میں کارروائی نہ کرنے پر وزیر اعظم کو برطرف کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ
11 جنوری 2012عدالت کے ایک پانچ رکنی بینچ نے قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کے مقدمے میں حکومت پر عدالتی احکامات سے ’قصداﹰ روگردانی‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ’ایماندار نہیں ہیں‘۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اگر انہوں نے عدالت کے سابق احکامات پر عملدر آمد نہ کیا تو انہیں ان کے عہدے سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کی برطرفی بھی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت میں حکومت کی جانب سے اس معاملے میں روڑے اٹکانے کی وضاحت کریں۔
این آر او کا معاملہ اس وقت سے متنازعہ چلا آ رہا ہے جب 2009 ء میں سپریم کورٹ کے ایک سترہ رکنی بینچ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ این آر او کے تحت صدر آصف علی زرداری اور سینکڑوں دیگر سیاست دانوں کو بدعنوانی کے مقدمات میں سزاؤں کے خلاف استثناء حاصل ہو گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کو یہ انتباہ ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جب فوج اور حکومت کے درمیان پہلے ہی میمو کیس کے معاملے پر تنازعہ چل رہا ہے اور ملک کو بہت سے اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔
بعض آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں کم از کم تین مواقع پر فوجی حکومتوں کے اقدامات کی توثیق کرنے والی سپریم کورٹ موجودہ سیاسی انتظامیہ سے معاندانہ رویہ رکھتی ہے اور فوج کے ساتھ مل کر آئینی ذرائع سے حکومت کو ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ان کے بقول مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہونے کی توقع ہے۔
این آر او معاہدے پر 2007 ء میں دستخط ہوئے تھے جس کے تحت سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو پاکستان واپس آ کر انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کے ساتھ زرداری کے سوئس بینک اکاوئنٹس کا معاملہ اٹھایا تھا مگر صدر کو حاصل استثناء کے باعث 2008 ء میں اس پر کارروائی روک دی گئی تھی۔ اس سے قبل جنیوا کی ایک عدالت نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کو لاکھوں سوئس فرانک کی منی لانڈرنگ کرنے پر 2003 ء میں ان کی غیر حاضری میں سزا سنائی تھی۔ اس سزا میں جرمانہ اور چھ ماہ قید شامل تھی تاہم اپیل کرنے پر یہ دونوں سزائیں معطل ہو گئیں۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھے۔
صدر زرداری کے سیاسی مستقبل پر لٹکتی ہوئی ایک اور تلوار میمو اسکینڈل بھی ہے جس سے حکومت اور فوج کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں پاکستان کے واشنگٹن میں سابق سفیر حسین حقانی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کو حکومت کا تختہ الٹنے سے روکنے کے لیے امریکی حکام سے مدد طلب کی تھی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر تفتیش ہے اور بعض دائیں بازو کے حلقوں اور فوج نواز میڈیا کے اداروں نے اسے ’غداری‘ قرار دیا ہے۔
میمو گیٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ حسین حقانی نے یہ میمو تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اگر عدالت میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس میمو میں صدر زرداری ملوث تھے تو اس سے ان کے مخالفین کے لیے موجودہ حکومت کی مخالفت کا ایک اور راستہ کھل سکتا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل