ایران سے خلیجی عرب ریاستوں کو خطرہ کم نہیں ہوا، چک ہیگل
7 دسمبر 2013ہفتے کے روز اپنے اس خطاب میں چک ہیگل نے خلیجی ریاستوں کو میزائل دفاعی نظام اور ہتھیاروں کی فروخت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنے اتحادیوں کے دفاع سے غافل نہیں۔ چک ہیگل نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کے ساتھ عالمی معاہدے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایران کی طرف سے لاحق سکیورٹی خطرات کسی صورت کم ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا خلیجی ریاستوں کے ساتھ دفاعی تعاون کو مزید فروغ دے گا جب کہ خطے میں امریکا کی فوجی موجودگی بھی برقرار رہے گی۔
ان کا کہنا تھا، ’میں بھی آپ کی طرح خطے میں روزمرہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے خطرات اور خدشات کے معاملے میں کسی ابہام میں کا شکار نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ امریکا کی سفارت کاری کی وجہ سے خطے میں موجود امریکی اتحادیوں کے خدشات بڑھے ہیں۔ ’امریکا نے ایران کے ساتھ سفارت کاری کا آغاز کیا، تاکہ خطے کے مشکل اور پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکے، جس میں ایران کا جوہری معاملہ اور شام کا مسئلہ شامل ہے، مگر اس سے ہمارے اتحادیوں کے خدشات میں اضافہ ہوا۔‘
انہوں نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ ایران کے ساتھ یہ عبوری معاہدہ کسی مستقل ڈیل کے لیے پہلا قدم ہے، جس پر امریکا نے نگاہ لگا رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے اس خطاب میں شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کا ذکر بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی نے شامی حکومت کو ایسے تباہ کن ہتھیاروں کی تباہی پر مائل کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ سفارت کاری کے پیچھے بھی امریکی فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی برقرار رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ’ہم جانتے ہیں کہ سفارت کاری کسی خلا میں نہیں ہو سکتی۔ اس کی کامیابی کے پیچھے امریکا کی عسکری طاقت کو ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے اتحادیوں اور پارٹنرز پر یہ بات واضح ہو کہ ضرورت پڑنے پر اس طاقت کا استعمال کیا جا سکتے ہے۔‘
اپنے اس خطاب میں چک ہیگل نے کہا کہ خطے میں 30 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جو بحری، فضائی اور زمینی کارروائی کی مکمل صلاحیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں موجود کوئی ہدف امریکا کی پہنچ سے باہر نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ خطے میں امریکی فوجی موجودگی کے باوجود واشنگٹن حکومت کی خواہش ہے کہ خلیجی ریاستیں اس قابل ہوں کہ وہ اپنا دفاع خود کر سکیں اور اس کے لیے امریکا انہیں جدید ترین اسلحہ فروخت کرے گا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل ایران حکومت اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا، جس میں ایران کو اعلیٰ افزودہ یورینیم کی تیاری روکنے اور پلوٹونیم تیار کرنے کی صلاحیت کے حامل عَراق کے جوہری پلانٹ کی تعمیر بند کرنے کے عوض اس کے خلاف سخت ترین عالمی پابندیوں میں قدرے نرمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ عالمی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری چاہتا ہے جب کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن قرار دیتا ہے۔