ایرانی جوہری معاہدے کی حتمی منظوری کون دے گا ؟
23 جولائی 2015ایرانی پاسداران انقلاب ایک مضبوط، سیاسی، معاشی اور فوجی طاقت ہے لیکن اس طاقت نے مغرب کے ساتھ ہونے والے ایرانی جوہری معاہدے پر تنقید شروع کر دی ہے۔ پاسداران انقلاب کے مطابق اس معاہدے سے ایرانی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ اس کی طرف سے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر بھی تنقید کی گئی ہے، جس میں اس معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔
دوسری جانب صدر حسن روحانی نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا عوامی خواہشات کے مطابق کیا گیا ہے اور یہ معاہدے سیاسی وقار کے ساتھ وجود میں آیا ہے۔ ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر اس معاہدے کو روکنے کی کوشش کی گئی تو یہ سن 2013ء میں انہیں ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہو گی۔
ٹیلی وژن پر براہ راست خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ یہ تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ یہ پیش رفت چودہ جولائی کو ویانا میں نہیں ہوئی بلکہ یہ پیش رفت اگست دوہزار تیرہ میں ہوئی تھی، جب ایرانیوں نے مجھے اپنا صدر منتخب کیا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایرانی ہو اور اسے اس معاہدے پر خوشی نہ ہوئی ہو ؟ ایرانی صدر جس وقت یہ تقریر کر رہے تھے، اس وقت وہاں نہ صرف ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بلکہ ملکی ایٹمی کمیشن کے سربراہ بھی موجود تھے۔
’’اندرونی رقابتیں‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی جوہری معاہدے پر بحث اندرونی رقابتوں کی بھی عکاس ہے اور وہاں چلنے والے دو متوازی جمہوری اور مذہبی نظام کا بھی نتیجہ ہے۔ ایران میں موجود دونوں دھڑے اس معاہدے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ قبل ازیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس معاہدے کو خوش آمدید کہا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اب اس معاہدے پر تنقید اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی گڑ بڑ یا ناکام ہوتی ہے تو یہ الزام عائد نہ کیا جائے کہ ملکی سپریم لیڈر نے اس کی تائید کی تھی۔
صدر روحانی کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ضروری تھا کہ یورینیم کی افزودگی کا سلسلہ جاری رہے لیکن یہ بھی اتنا ہی ضروری تھا کہ ایرانیوں کی ’روزمرہ کی زندگی آسان بنائی جائے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تجارت ’پتھر کے زمانے‘ میں پہنچ چکی تھی۔
سپریم لیڈر خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر علی اکبر ولایتی نے آج کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس معاہدے کی حتمی منظوری کونسا ادارہ دے گا لیکن نیشنل سکیورٹی کونسل کو اس معاہدے کا جائزہ لینے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔