ایبولا اندازوں سے کہیں بڑا خطرہ ہے، عالمی ادارہ صحت
15 اگست 2014ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ایبولا کے خطرے کو بڑی حد تک کم تر سمجھا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بحران مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے اور یہ ادارہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
مغربی افریقہ کے ملکوں میں ایبولا وائرس کی یہ اب تک کی سب سے بڑے پیمانے پر اور طویل ترین دورانیے کے لیے پھیلنے والی وبا ہے۔ اس کی شرح اموات پچاس فیصد ہے۔ یہ وبا رواں برس مارچ میں گنی سے شروع ہوئی تھی جس کے بعد یہ سیرا لیون، لائبیریا اور نائجیریا بھی پہنچ گئی۔
ایبولا وائرس کے بارے میں پہلی مرتبہ 1976ء میں پتہ چلا تھا۔ تب سے وسطی اور مشرقی افریقہ میں بیس مرتبہ یہ وبا پھیلی ہے۔ تاہم مغربی افریقہ میں اس وبا کے پھیلنے کا یہ پہلا موقع ہے۔
یہ دُنیا کی خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ایبولا وائرس چند ہی دِنوں میں اپنے شکار کی جان لے سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید بخار، پٹھوں میں درد، ابکائیوں اور اسہال کا سامنا ہو تا ہے اور بعض حالات میں اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جبکہ مسلسل خون بھی رستا ہے۔
اس وائرس کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار ساٹھ ہلاکتوں اور تقریباﹰ دو ہزار متاثرین کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان اعدادوشمار کے ساتھ یہ وائرس پہلے ہی اب تک کی سب سے بڑی تباہی بن کر سامنے آیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس حوالے سے لائبیریا کے حکام کو جمعرات کو انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ ایبولا سے متاثرہ کون سے مریضوں کو تجرباتی دوا دی جائے جو بلآخر ان کی جان بچا سکتی ہے یا غیر مؤثر ہو سکتی ہے یا پھر نقصان دہ بھی بن سکتی ہے۔
اس دوا کو ZMapp کا نام دیا گیا ہے اور اس کا ابھی تک تجربہ نہیں کیا گیا۔ اسے بدھ کو مغربی افریقہ کے متاثرہ ملکوں میں پہنچایا گیا۔ جمعرات تک یہ دوا کسی مریض کو نہیں دی گئی۔ حکام کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اسے تین افراد کو دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ ڈبلیو ایچ او ایبولا وائرس کی وبا کو پہلے ہی انٹرنیشنل پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دے چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی برادری سے مالی اور تکنیکی وسائل کی فراہمی کی اپیل بھی کر چکا ہے۔