امریکی مسلمانوں میں انتہاپسندی کے عنصر کی ’تفتیش‘
10 مارچ 2011یہ ایسا دَور ہے، جب دہشت گرد تنطیم القاعدہ اور اس سے منسلک شدت پسند گروہ امریکہ میں حملے کرنے کے لیے مسلمانوں اور دیگر شہریوں کو بھرتی کرنے کی کوششیں کھلے عام کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ہاؤس ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین پیٹر کنگ نے اس موضوع پر کانگریس کی سماعت کو کلی طور پر ناگزیر قرار دیا ہے۔
انہوں نے ٹیلی وژن پر ایک بیان میں کہا، ’میں حقیقت کا سامنا کر رہا ہوں جبکہ مجھ پر تنقید کرنے والے ایسا نہیں کر رہے‘۔
پیٹر کنگ کا مزید کہنا تھا، ’القاعدہ اپنے حربے بدل رہی ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گئی ہے کہ باہر سے یہاں حملہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے وہ اندرون ملک بھرتیاں کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘۔
کانگریس کی سماعت جمعرات کو شروع ہو رہی ہے، جس کی قیادت پیٹر کنگ ہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ امریکی مسلمانوں کے تعاون پر بھی سوال اٹھایا ہے جبکہ الزام لگایا ہے کہ مساجد سے انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
اس سماعت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ 1950ء کی دہائی میں ریپبلیکن سینیٹر جوزف مکارتھی کی سربراہی میں امریکہ میں کمیونسٹوں اور ان کے حامیوں کا پتہ لگانے کے لیے ہونے والی کانگریس کی سماعت کی مانند ہے۔
دوسری جانب مسلمانوں اور شہری حقوق کے کارکنوں نے کنگ کے مؤقف کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نیویارک میں اس سماعت کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کرنے والے امام شمسی علی کا کہنا ہے، ’یہ سماعت امریکی قوم کے عمومی احساسات کی عکاسی نہیں کرتی‘۔
انہوں نے کہا، ’مجھے ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ مسلمان تعاون نہیں کر رہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ برس نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر ناکام بم حملے کی اطلاع ایک مسلمان نے ہی دی تھی۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی