امریکی صحافی کی 22 ماہ بعد شامی باغی گروپ سے رہائی
25 اگست 2014پینتالیس برس کے ادیب و فری لانس صحافی پیٹر تھیو کرٹس (Peter Theo Curtis) کو اتوار 24 اگست کو رہائی دی گئی۔ انہیں اکتوبر سن 2012 میں شام کی سرحد عبور کرنے کے فوری بعد النصرہ فرنٹ کے جہادیوں نے اغواء کر لیا تھا۔ انہیں اسرائیلی قبضے میں آئی ہوئی گولان ہائٹس کے تباہ شدہ القنيطرہ شہر کے قُرب میں واقع ایک گاؤں الرفید میں اقوام متحدہ کے امن دستے کے حوالے کیا گیا۔ پیٹر تھیو کرٹس فری لانس جرنلسٹ ہونے کے علاوہ ایک ادیب بھی ہیں۔ رہائی کے بعد اُن کا طبی معائنہ کیا گیا اور اُس کے بعد امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
تھیو کرٹس کی رہائی کی تصدیق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کر دی ہے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ آخرِ کار وہ واپس اپنے گھر لوٹ رہے ہیں۔ جان کیری نے اپنے بیان میں کہا کہ کرٹس کی رہائی خاص طور پر گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والے المیے کے بعد ایک ایسی خبر ہے کہ جس سے اطمینان حاصل ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتےکے دوران عراق و شام میں متحرک انتہا پسند مسلمان تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے ایک امریکی صحافی جیمز فولی کا سر قلم کر کے اس کی ویڈیو جاری کی تھی۔ تھیو کرٹس کی رہائی کی اطلاع امریکی صدر اوباما کو بھی دی گئی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدرکرٹس کی رہائی پر وہ بہت خوش ہوئے ہیں۔امریکا میں قائم صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی CPJ نے بھی کرٹس کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ شام میں20 کے قریب لاپتہ دوسرے صحافیوں کو بھی جلد رہائی حاصل ہو سکے گی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے مطابق پیٹر تھیو کرٹس کی رہائی کے لیے تقریباً دو درجن ممالک سے رابطے کیے گئے تھے۔ کیری کے مطابق اُن کی حکومت ایک اور امریکی صحافی کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے بھی امریکی صحافی کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد اپنے خاندان کے ہمراہ ہوں گے۔
کرٹس کی فیملی نے امریکا اور قطر کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا کہ اُن کی کوششوں کے نتیجے میں کرٹس کو رہائی ملی ہے۔ رہائی پانے والے صحافی کی والدہ نینسی کی جانب سے شکریے کا پیغام جاری کیا گیا۔ پیٹر تھیو کرٹس فری لانس صحافی ہیں اور وہ بوسٹن اور ورمونٹ کے مختلف اخبارات و جرائد کے لیے مضامین اور کالم تحریر کرتے ہیں۔ کرٹس اپنی قلمی نام تھیو پاڈنوز کے نام سے لکھتے ہیں۔
کرٹس نے اب تک دو کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں ایک یمن میں خفیہ مسلمان کی حیثیت سے کام کرنے والے کے بارے میں ہے اور کتاب کا نام ’’ Undercover Muslim: A Journey into Yemen ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مدرسے میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والے ایک خفیہ مسلمان کی یاداشتیں مرتب کی گئی ہیں۔ دوسری کتاب ورمونٹ میں ٹین ایجر مجرموں کو لٹریچر پڑھانے کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کا نام My Life Had Stood a Loaded Gun ہے۔