امریکہ عراق میں کب تک رہے گا ؟
20 اگست 2011سن دو ہزار آٹھ کے معاہدے کے مطابق اگر دونوں ملکوں کی رضا مندی سے کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوتا، تو امریکہ کو اپنے تمام فوجی رواں برس کے اختتام تک عراق سے نکالنا ہوں گے۔ عراق میں اس وقت تقریباﹰ 46 ہزار امریکی فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
دو امریکی اخبارات کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے کہا کہ عراقیوں نے ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے معاہدے کی توسیع کا ارادہ کیا ہے۔ پنیٹا کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں عراقی ہمیں ’ہاں‘ میں جواب دیں گے۔‘‘
عراقی حکومت نے تین اگست کو اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی افواج کی 2011ء کے بعد ملک میں تعیناتی سے متعلق مذاکرات جارے رکھے ہوئے ہے۔ عراقی حکومت کے مطابق ملک میں امریکی فوجیوں کے قیام کا مقصد ملکی افواج کو تربیت دینا ہے۔
بغداد میں وزیر اعظم نوری المالکی کے دفتر سے فوری طور پر پنیٹا کے اس بیان کی تردید سامنے آئی ہے۔ عراقی وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر علی موسوی کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’امریکی تربیتی فورسز کے ملک میں قیام سے متعلق ابھی کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا گیا، مذاکرات ابھی جاری ہیں۔‘‘
امریکی فوج کی موجودگی عراق میں ایک انتہائی نازک سیاسی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ امریکہ مخالف شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے خبردار کر رکھا ہے کہ ملک میں امریکی افواج کی سن 2011 کے بعد موجودگی سے ’جنگ‘ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ عراقی اور امریکی فوجی افسروں کا خیال ہے کہ عراق ملکی سرحدوں خاص طور پر فضائی حدود کی نگرانی کے قابل ابھی تک نہیں ہوا۔
امریکہ عراق میں کب تک رہے گا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بغداد میں امریکہ نے اربوں ڈالر کی لاگت سے اپنا دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ تعمیر کر رکھا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم عراقی شہر عُر کے نواح میں، طلیل کے مقام پر اپنا جو فضائی اڈہ قائم کیا ہے، وہ پورے مشرق وسطٰی میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی ارب ڈالر کی لاگت سے ایک اور امریکی فوجی اڈہ عراقی شہر بلاد میں تعمیر کیا گیا ہے، جہاں 40 ہزار تک فوجی تعینات کئے جا سکتے ہیں۔
دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے دوجوازمہیا کئے گئے تھے۔ صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ اور وسیع تر تباہی کا باعث بن سکنے والے اُن کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش، جن کا بعد میں کسی کو بھی کوئی نام و نشان تک نہ ملا۔ عراق میں امریکی فوجی موجودگی کے لیے اب یہ دونوں جواز ختم ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر