اقوام متحدہ کے اہلکار بھی جنسی حملوں کے الزامات کی زد میں
4 مارچ 2016اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے اسٹاف کی جانب سے جنسی حملوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے 69 حملے اقوام متحدہ کے 10 فوجی امن مشنوں کے اہلکاروں نے کیے۔ اس رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے پرچم تلے کام کرنے والے پولیس اور فوجی اہلکاروں کی جانب سے یہ جنسی حملے 21 ممالک میں کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر افریقی ممالک تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے جاری کردہ اس رپورٹ میں ان اہلکاروں کی شناخت یا شہریت کی بابت معلومات جاری نہیں کی گئیں، تاہم کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے اسٹاف میں شامل 30 ایسے افراد کے خلاف جنسی حملوں اور استحصال کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، جو امن مشنوں میں شامل نہیں تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو حاصل ہونے والی اس رپورٹ کی ایک نقل کے مطابق اقوام متحدہ کی نئی ’نیم اینڈ شیم‘ یا ’نام لو اور شرمندہ کرو‘ پالیسی کے نفاذ کے تحت یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ اس سے قبل وسطی افریقی جمہوریہ میں اقوام متحدہ کے امن فوجی مشن میں شامل دستوں کے خلاف ریپ اور جنسی حملوں کے الزامات تواتر کے ساتھ سامنے آئے تھے۔
اس سے قبل سامنے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ جنسی حملوں کے زیادہ تر واقعات امن فوج میں شامل ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے فوجیوں کی جانب سے پیش آئے، اور یہ فوجی وسطی افریقی جمہوریہ میں تعینات تھے۔ اس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک اور کینیڈا کے فوجیوں کے خلاف بھی اسی قسم کے الزامات سامنے آئے تھے۔
ایسے ہی الزامات اقوام متحدہ کے پرچم تلے کام کرنے والے ان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی سامنے آئے تھے، جن کا تعلق برونڈی، جرمنی، گھانا، سینیگال، مڈغاسکر، روانڈا، جمہوریہ کانگو، برکینا فاسو، کیمرون، تنزانیہ، سلوواکیہ، نائجر، مولدووا، ٹوگو، جنوبی افریقہ، مراکش، بینن، نائجیریا اور گیبون سے تھا۔
وسطی افریقی جمہوریہ میں ایسے واقعات میں ہیٹی، مالی، آئیوری کوسٹ اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو سے تعلق رکھنے والے فوجی ملوث تھے۔
اس رپورٹ میں اقوام متحدہ نے اپنی رکن ریاستوں کو تجاویز دی ہیں کہ وہ کیسے ایسے واقعات میں ملوث فوجیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکتے ہیں۔