افغانستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ جلد چاہتے ہیں، امریکا
26 ستمبر 2013امریکی صدر باراک اوباما کے افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی مندوب جیمز ڈوبنز نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان کے ساتھ تعطل کا شکار سلامتی کے معاہدے پر دستخط آئندہ برس افغان صدارتی انتخابات سے قبل چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلاء اگلے برس تک مکمل ہو جائے گا۔ ماضی میں افغان حکومت اور امریکا افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد ملکی سکیورٹی کو ایک خاص حد تک یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے سے افغان حکومت اور امریکا کے درمیان نسبتاً سرد مہری دیکھی جا رہی ہے اور اس معاہدے پر دستخط التوا کا شکار ہوتا رہا ہے۔ افغانستان اور امریکا کے درمیان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعض پہلوؤں پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب امریکی حکومت نے طالبان عسکریت پسندوں کو قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی تو افغان حکومت نے اس پر امریکا سے شدید احتجاج کیا تھا۔ افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کرنا چاہتی ہے۔
امریکا اور افغانستان کے درمیان ممکنہ معاہدے کے طے پا جانے کے بعد امریکا قانونی طور پر افغانستان میں اپنی افواج کے چند دستے رکھ سکتا ہے۔
جیمز ڈوبنز کا اسے بارے میں کہنا تھا: ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے کا اکتوبر میں طے پا جانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد افغانستان میں سیاسی مہم تیز ہو جائے گی۔‘‘ ڈوبنز کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ افغان صدارتی مہم میں یہ معاملہ تنازعے کی شکل اختیار کر جائے۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ انتخابی مہم کا پس منظر نہ بنے اور جو موضوعات اس مہم میں کلیدی حیثیت اختیار کریں وہ افغانستان کے مستقبل اور افغانستان کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات سے منسلک ہوں۔‘‘
اپریل میں ہونے والے انتخابات کے لیے افغان انتخابی کمیشن نے صدارتی امیدواروں کی رجسٹریشن شروع کر دی ہے۔ اب تک صرف ایک امیدوار نے انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاہم چھ اکتوبر کی آخری تاریخ تک کافی تعداد میں صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی داخل کرائے جانے کی توقع ہے۔
صدر کرزئی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انہیں امریکا کے ساتھ اس معاہدے کی تکمیل کے لیے کوئی جلدی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ صدر کرزئی آئینی قدغن کے باعث افغان صدارتی انتخابات میں تیسری بار حصہ نہیں لے سکیں گے۔