1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی پہلی خواتین باکسر ٹیم

2 جنوری 2012

افغانستان میں رہنے والی نوجوان بہنیں شبنم اور صدف افغانستان کی پہلی خواتین باکسر ٹیم کا حصہ ہیں. تمام تر مشکل حالات کے باوجود افغان باکسر لڑکیاں ، اولمپک گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/13cuc
صدف افغانستان کی پہلی خواتین باکسر ٹیم کا حصہ ہیں
صدف افغانستان کی پہلی خواتین باکسر ٹیم کا حصہ ہیںتصویر: AP

خواتین باکسنگ جیسی گیم کم ہی کھیلتی نظر آتی ہیں اور افغانستان جیسے ملک میں تو اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، جہاں ابھی بھی زیادہ تر لڑکیاں تعلیم حاصل کرنےجیسے بنیادی حق کے لیے کوشاں ہیں۔

ٹیم کے کوچ محمد صابر شریفی
ٹیم کے کوچ محمد صابر شریفیتصویر: AP

18 سالہ صدف کا کہنا ہے، ’’یہ میرا خواب تھا کہ میں ایک باکسر بنوں۔ پہلے میرے والد کو میرا یہ کھیل پسند نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن جب میں نے پہلا میڈل جیتا تو انہو نے اپنی رائے بدل لی۔‘‘ ہفتے میں تین بار باکسنگ ٹیم کی لڑکیاں غازی اسٹیڈیم آتی ہیں۔ طالبان کے دور میں یہ میدان مجرموں کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ٹیم کی پریکٹس اسی اسٹیڈیم میں واقع ایک پرانے جم میں ہوتی ہے، جہاں کے آئینے ٹوٹے ہوئے ہیں اور دیواروں کا رنگ اکھڑا ہوا ہے۔ فرش پر چند پرانی چٹائیاں بچھی ہوئی ہیں جبکہ چند لڑکیوں نے پریکٹس کے دوران ماسک پہنے ہوتے ہیں تاکہ دھول کی وجہ سے ان کی سانس بند نہ ہو۔طالبان کے دور میں خواتین کے لیے تمام اسپورٹس پر پابندی تھی۔ مردوں کے مقابلے میں ابھی بھی ان کے لیے بہت کم مواقع ہیں۔

افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں بہت سے لوگ خواتین کی باکسنگ کو ممنوع سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹیم کی لڑکیوں کو اکثر دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔ 19 سالہ شبنم کا کہنا ہے، ’’دو سال پہلے کسی نے میرے والد کو فون کیا اور دھمکی دی کہ اگر ہمیں ٹریننگ کے لیے جانے دیا گیا، تو ہمیں اغوا کر لیا جائے گا یا پھر قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ اس دھمکی کے بعد شبنم اور اس کی بہن ایک ماہ کے لیے ٹریننگ پر نہیں گئیں۔ ایک ماہ بعد ان کے ٹرینر نے لڑکیوں کے لیے سفری سہولیات کا انتظام کیا اور ٹریننگ کو جم تک محدود کر دیا گیا، جہاں حکومت ان کو سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔

ٹیم کی پریکٹس ایک پرانے جم میں ہوتی ہے
ٹیم کی پریکٹس ایک پرانے جم میں ہوتی ہےتصویر: AP

یہ ٹیم سن 2007 میں افغانستان کی قومی اولمپک کمیٹی کے ذریعے بنائی گئی تھی۔ ٹیم کے کوچ محمد صابر شریفی کہتے ہیں،’’ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ افغان خواتین رہنما بھی بن سکتی ہیں، وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں، حتٰی کہ باکسنگ بھی کھیل سکتی ہیں۔‘‘ ٹیم کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ سن 2012 میں لندن میں ہونی والی اولمپک کھیلوں میں حصہ لیں۔ لیکن اس میں شمولیت سے پہلے افغان باکسر خواتین کو چین میں ہونے والے سخت کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ شبنم کے بقول آج تک کبھی بھی کسی افغان خاتون نے کوئی بین الاقوامی تمغہ نہیں جیتا لیکن اس کا یہ خواب ہے کہ وہ کوئی میڈل جیت کر ملک کا پر چم سر بلند کرے.

سن 2012 میں لندن میں ہونی والی اولمپک کھیلوں
سن 2012 میں لندن میں ہونی والی اولمپک کھیلوںتصویر: dapd

رپورٹ: راحل بیگ

ادارت: امتیاز احمد