اضافی گارنٹیز کے لئے طریقہٴ کار: چینی مطالبے پر بحث
23 دسمبر 2020روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے مین لائن ون—پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن اور دوہری لائن—کی فنانسنگ کی منظوری دینے سے پہلے پاکستان سے اضافی گارنٹیز مانگ لی ہیں۔ اٹھارہ سوبہتر کلومیڑ طویل لائن کے لئے تقریبا چھ بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ پراجیکٹ سی پیک کے فیز ٹو کا ایک اہم حصہ ہے۔ اخبار کے مطابق یہ مطالبہ دس دن پہلے ہونے والے ایک اجلاس میں سامنے آیا، جس میں چینی اور پاکستانی حکام نے شرکت کی۔ایشیا کا نیا ممکنہ اتحاد، روس، چین، ایران اور پاکستان
ادائیگی کی صلاحیت پر سوال
مالیاتی و معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی ممالک سے قرضے کی ادائیگی میں ریلیف مانگنے سے پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت پرسوالات اٹھے ہیں اور چین کی طرف سے اضافی گارنٹیز کے میکینزم کے مطالبے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ "میرے خیال سے پاکستان کا یہ فیصلہ مناسب نہیں کیونکہ اس سے ہمیں صرف ایک بلین ڈالر کے قریب کے قرضے کی ادائیگی میں کچھ وقت مل گیا ہے اور وقت ملا ہے، قرضہ معاف نہیں ہوا لیکن ایسا کرنے سے بین الاقوامی کریڈیٹرز کی نظر میں ہماری ادائیگی کی صلاحیت پر سوالات اٹھے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کی شرائط میں یہ بھی ہے کہ ہم مہنگا قرضہ نہیں لے سکتے۔ اس ریلوے پروجیکٹ میں تیس فیصد کے قریب قرضہ کمرشل ہے اور کمرشل قرضہ مہنگا ہی ہوتا ہے، پاکستان ایک فیصد شرح سود چاہا رہا تھا، جس سےچین نے اتفاق نہیں کیا۔"
اسٹریجک اور سیاسی پہلو
معاشی ماہرین اس مطالبے کے دوسرے اہم پہلووں پر بھی غور وغوض کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ صرف تیکنکی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اسٹریٹیجک اور سیاسی پہلو بھی ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا خیال ہے کہ پاکستان سری لنکا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرح چینی جال میں پھنستا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "چین نے سری لنکا اور لاطینی امریکہ میں قرضوں کے بدلے اثاثے قبضے میں کر لئے ہیں۔ سری لنکا کی بندرگاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گوادر ہم نے پہلے ہی چالیس برسوں کے لئے چین کو دیا ہوا ہے اور اب اگر ہم قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے تو وہ اضافی گارنٹی کے لئے ہم سے کچھ بھی مانگ سکتا ہے۔ وہ گوادر کی لیز ننانوے سال کے لئے مانگ سکتا ہے۔ کراچی کی بندرگاہ طلب کر سکتا ہے۔ اسی طرح وہ کسی دوسرے پروجیکٹ میں رعایت مانگ سکتا ہے کیونکہ چینی پورے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔"
’’اقتصادی پیکجز پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے ناکافی ہیں‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی لیوریج نہیں ہے۔ "پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ امریکہ بھی ہمارے طرف دیکھنا نہیں چاہتا اور اس نے اپنے پالیسی پیپرز میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔ تو اب صرف چین ہی رہ گیا ہے، جو نو آبادیاتی انداز میں کام کر رہا ہے۔"
کوئی مثال نہیں ملتی
ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ گارنٹی اور اضافی گارنٹی مانگنا چینی خاصہ ہے۔ "ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف شرائط لگاتے ہیں کہ پاور ٹیرف بڑھا دو، سبسڈی ختم کردو، نجکاری کردو وغیرہ وغیرہ لیکن گارنٹیوں اور اضافی گارنٹیوں کا سلسلہ چینیوں نے شروع کیا ہے، جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اثاثے ان کے قبضے میں جا سکتے ہیں اور یہاں تک کے وہ ہماری بندرگاہوں پر بیٹھ کر امریکی خطرے کو ٹالنے کی منصوبہ بندی بھی کر سکتے ہیں۔ تو ان گارنٹیز کے سیاسی و اسٹریجک پہلو بھی ہیں، جو ہمیں پیش نظر رکھنے چاہیں۔"
بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش
ڈاکٹر عذرا کا خیال ہے کہ چین نے پاکستان کی تمام شرائط کو بظاہر مسترد کر دیا ہے۔ "پاکستان ایک فیصد شرح سود پر قرضہ چاہتا تھا، جو چین نے مسترد کر دیا ہے۔ قرضے ادا کرنے کی مدت کو دس سال سے بیس سال تک بڑھانے کو بھی بیجنگ کی طرف سے نہیں تسلیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس ریلوے پروجیکٹ کے پہلے فیز کی فنانسنگ کو چین حتمی شکل دینا چاہتا ہے جب کہ دوسرے اور تیسرے فیز کی فنانسنگ کو لٹکانا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کی بیجنگ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال بھی پیدا کرنے چاہتا ہے اور پاکستان کو اپنا محتاج بھی رکھنا چاہتا ہے۔ یہ رویہ بالکل ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی طرح ہے، جہاں ہمیں بار بار یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہم دہشت گردی کی مالی معاونت نہیں کر رہے۔ تو چین ہمیں اپنی لائن پر رکھنا چاہتا ہے۔"
پریشان کن معاملہ
وزارت خزانہ کے ایک سابق اعلی عہدیدار نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان کا سن دوہزار اٹھارہ میں ڈیٹ ٹو جی ڈی پی شرح بہتر فیصد تھی، جو اب ستاسی فیصد ہے۔ جب یہ شرح بڑھتی ہے تو قرضے دینے والے ادائیگیوں کے حوالے سے پریشان اور فکر مند ہوتے ہیں۔ تو یہاں بھی یہی صورت حال ہے، جو پاکستان کے لئے پریشان کن ہے۔ اضافی گارنٹیز میں یہ ہوسکتا ہے کہ پشاور سے لاہور تک ریونیو چین پورا مانگ لے یا آدھا مانگ لے۔ میرے خیال میں اثاثے والا معاملہ نہیں ہوگا جیسا کہ سری لنکا میں ہوا۔ لیکن بہرحال صورت حال ہمارے لئے پریشان کن ہے۔"
ڈی ڈبلیو نے جب وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے متعلقہ ادارے سے رابطہ کرنے کا کہا۔ جب ڈی ڈبلیو نے سیکریٹری اکنامک افیئرز ڈویژن نور احمد سے اس حوالے سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت کا اس معاملے سے اس اسٹیج پر کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ سیکریٹری ریلوے سے اس مسئلے پر رابطہ کیا جائے۔