اسلامک اسٹیٹ کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، امریکی صدر
29 ستمبر 2014امریکی صدر باراک اوباما نے سی بی ایس ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام میں سنی عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں سے متعلق گزشتہ اندازے درست نہیں تھے۔ اوباما نے اتوار کی شام نشر ہونے والے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں اس بارے میں درست اندازے لگانے میں ناکام رہیں کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو کتنے طاقتور ہو سکتے تھے اور عراقی فوج ملک میں شدت پسند گروپوں کا کس حد تک کامیابی سے مقابلہ کر سکتی تھی۔ امریکی صدر کے بقول عراق میں پسپا ہونے والے شدت پسند شام میں جمع ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
CBS ٹیلی وژن کے پروگرام ’سِکسٹی منٹ‘ میں نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے اوباما نے اعتراف کیا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا تھا، اس بارے میں امریکی خفیہ اداروں کے اندازے درست نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا، ’’شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران انہوں (جنگجوؤں) نے خود کو منظم کر لیا ہے۔ یہ مقام اب دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے گراؤنڈ زیرو بن چکا ہے۔‘‘ امریکی صدر باراک اوباما نے ایک بار پھر کہا کہ شام اور عراق میں پائیدار امن کے لیے سیاسی حل ناگزیر ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگرچہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ایک بڑا عالمی اتحاد قائم ہو چکا ہے لیکن بظاہر زیادہ تر کارروائی امریکا کر رہا ہے، اوباما کا کہنا تھا، ’’ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے کہ امریکا مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے پاس جو صلاحیت ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری فوج بہترین ہے۔ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو بیجنگ یا ماسکو سے مدد طلب نہیں کی جاتی بلکہ ہمیں بلایا جاتا ہے۔‘‘
اوباما کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب امریکی فوجیوں نے عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خلاف بغداد حکومت کے تعاون سے آپریشن شروع کیا تھا تو یہ جنگجو زیر زمین چلے گئے تھے۔ جیمز کلیپر نے رواں ماہ کے دوران واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ امریکا نے اسلامک اسٹیٹ کی صلاحیتوں کو کم سمجھا جبکہ عراقی فورسز کی طاقت کو زیادہ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ ان جہادیوں کے مقابلے میں عراقی فورسز ناکام ہو جائیں گی۔
دوسری طرف اتوار کی ہی شام کو امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں نے شام کے مرکزی گیس پلانٹ کے صدر دروازے پر فضائی حملے کیے۔ شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ان حملوں کے ذریعے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقے اور تنصیبات خالی کر دیں۔ عراقی سرحد کے قریب مشرقی شام کے صوبے دیر الزور میں قائم کونیکو Coneco کا یہ پلانٹ شام کا سب سے بڑا گیس پلانٹ ہے، جو تیل اور گیس کی کئی دیگر بڑی تنصیبات کی طرح اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔
عراق میں اسلامک اسٹیٹ اور دیگر جہادی گروپوں کے خلاف امریکی فضائی حملے ڈیرھ ماہ قبل شروع کیے گئے تھے جبکہ شام میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی گزشتہ منگل کو شروع ہوئی۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار تک شام میں جہادیوں کے ٹھکانوں پر کیے جانے والے حملے تیل کی عارضی ریفائنریوں پر کیے گئے تاکہ جنگجوؤں کے ذرائع آمدن کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کونیکو پلانٹ اور وہاں عبادت کے لیے بنائے گئی جگہ پر ہوئے تازہ حملوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، ’’بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی اتحاد کی کوشش ہے کہ یہ جنگجو اس پلانٹ کو خالی کر دیں۔‘‘