اسلامک اسٹیٹ کی دھمکی: سعودی عرب میں سکیورٹی چوکس
19 نومبر 2014سعودی حکومتی حلقوں نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی کو سخت کرنے کے بعد اب امکاناً اسلامک اسٹیٹ کے جہادی فرقہ واررانہ فسادات کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ اس مناسبت سے حکومتی حلقوں کو تشویش لاحق ہے کہ انتہا پسند سعودی عرب کی شیعہ اقلیت کو ہلاک کرنے کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران اسلامک اسٹیٹ جہادی گروپ کے سربراہ اور خود ساختہ خلیفہ ابُوبکر البغدادی نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے افراد پر حملوں کا اشارہ دیا تھا۔
سعودی عرب نے البغدادی کی تنظیم کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ سعودی ایئر فورس عراق و شام میں امریکا کے فضائی مشن کا حصہ بھی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کی شیعہ اقلیت پر مسلح افراد نے حملہ بھی کیا تھا۔ عسکریت پسندوں نے پہلی مرتبہ سعودی شیعہ آبادی کو سن 2006 میں ٹارگٹ کیا تھا۔ رواں مہینے کے اوائل میں الاحسا کے مقام پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ اِس حملے میں آٹھ شیعوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ بعد میں سعودی حکام نے چھ مختلف شہروں سے پندرہ مشتبہ انتہا پسندوں کو گرفتار بھی کیا تھا۔
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور ترکی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ جیسی تنظیمیں سعودی مملکت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں یا منظم جرائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ دہشت پسند گروپ اُن کے ملک کے سماجی صورت حال کو درہم برہم کر کے فرقہ واریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق وہ اِس مناسبت سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ شیعہ آبادی پر ہونے والے تین نومبر کے حملے کا انتظام اسلامک اسٹیٹ نے کیا تھا۔ دوسری جانب سعودی عرب کے اعلیٰ علماء نے بھی اسلامک اسٹیٹ کی مذمت کی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ القاعدہ کی تشکیل اور افزائش میں سعودی عرب کے شہریوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ابھی تک اسلامک اسٹیٹ کا کوئی کلیدی عہدہ کسی سعودی انتہا پسند کو تفویض نہیں کیا گیا ہے۔ یہ البتہ طے ہے کہ اسلامک اسٹیٹ میں شامل سعودی باشندوں کو پراپیگنڈے کے لیے استعمال ضرور کیا جا رہا ہے۔ رواں برس فروری میں ایک شاہی فرمان کے تحت اُن افراد کے لیے کئی برسوں کی سزادینے کا اعلان کیا گیا ہے، جو عراق اور شام کے جہادی گروپوں میں شریک ہو کر مسلح کارروائیوں کا حصے بن چکے ہیں۔