اسلامک اسٹیٹ پر کتابیں پھینکیں بم نہیں، شیریں عبادی
13 دسمبر 2014یہ بات اہم ہے کہ شیریں عبادی ایران کی پہلی خاتون جج رہ چکی ہیں، تاہم 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور وہ تب سے ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ انہیں سن 2003ء میں نوبل امن انعام دیا گیا تھا جب کہ وہ سن 2009 سے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی قیادت میں عسکری مہم کا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ عراق اور شام سے اسلامک اسٹیٹ کے خاتمے کے لیے جاری عسکری مہم سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
’’آپ بیتے ہوئے برسوں پر نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ جتنا سرمایہ طالبان کے خاتمے کے لیے عسکری کارروائیوں پر لگایا گیا، اس کے باوجود کیا ہم نے انہیں ختم کر دیا؟ بدقسمتی سے نہیں۔‘
یہ بات اہم ہے کہ شیریں عبادی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ انتہا پسندی کے خلاف لڑائی اور شدت پسند تشریحات کے خلاف جنگ میں گزارا۔ وہ اس بات پر مصر ہيں کہ اس شدت پسندی کا تدارک عسکری کارروائیوں کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔
’’اسلامک اسٹیٹ طالبان ہی کی طرح کی ایک شاخ ہے۔ یہ صرف ایک دہشت گرد گروہ نہیں بلکہ ایک نظریہ بھی ہے۔ آپ کو اس کی جڑوں سے لڑنا ہو گا۔ جب آپ جڑیں کاٹ ڈالیں گے، تو یہ پودا نمو نہیں پا سکے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’میرے نزدیک یہ جڑیں دو چیزیں ہیں۔ جہالت اور سماجی نا انصافی۔‘
شیریں عبادی نے اپنے انٹرویو میں کہا، ’ان پر بم پھینکنے کی بجائے۔ ہمیں ان پر کتابیں پھینکنا چاہیئں، ہمیں اسکول تعمیر کرنا چاہیئں۔ تب آپ اس شدت پسندی کا مکمل خاتمہ دیکھیں گے۔‘
واضح رہے کہ عبادی نوبل انعام یافتہ افراد کی ایک کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں روم میں ہیں۔ انہوں نے اپنا نام ان افراد کی فہرست میں ڈالا ہے، جو چاہتے ہیں کہ متعدد امور سے جنگ کے لیے مغربی ممالک اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی جوہری ہتھیاروں کی تیاری، اسلامک اسٹیٹ، بوکو حرام، لیبیا میں خانہ جنگی اور افراتفری اور مغربی ممالک کے گلی کوچوں تک دہشت گردی پھیل جانے جیسے معاملات کے تدارک کے لیے مغربی ممالک کو ٹھوس اقدامات کرنا چاہیں۔