1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹيٹ کوبانی کے ايک تہائی سے زائد حصے پر قابض‘

عاصم سلیم10 اکتوبر 2014

سنی شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر کوبانی کے ايک تہائی سے زائد حصے پر قابض ہو چکی ہے۔ امريکی قيادت ميں جاری فضائی کارروائی جہاديوں کی پيش قدمی روکنے ميں تاحال ناکام رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DSsE
تصویر: Reuters/U. Bektas

نيوز ايجنسی روئٹرز نے واشنگٹن حکام کے ذرائع سے بتايا ہے کہ جمعرات اور جمعے کی درميانی شب امريکی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف تازہ فضائی حملے کيے ہيں۔ يہ نو حملے شامی حدود ميں کوبانی کے شمال اور جنوب ميں کيے گئے، جن ميں جہاديوں کے زير قبضہ چار عمارات تباہ ہو گئيں جبکہ چند لڑاکا يونٹس بھی نشانہ بنے۔ امريکی افواج نے عراق ميں بھی اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں کے خلاف دو فضائی حملے کيے۔

تازہ فضائی حملوں کے بعد امريکی فوج کی طرف سے کہا گيا ہے کہ ’ايسا معلوم ہوتا ہے کہ کرد فورسز کوبانی کے دفاع ميں اپنا مقام سنبھالے ہوئی ہيں‘۔ اس کے برعکس شامی امور پر نظر رکھنے والی تنظيم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹيٹ نے پيش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

Bildergalerie Kobane
ترک وزير خارجہ نے کوبانی کی مدد کے ليے اپنے ملک کی فوج بھيجنے سے انکار کر ديا ہےتصویر: Christopher Johnson

اس تنظيم کے سربراہ رامی عبدالرحمان کے بقول کوبانی کے ايک تہائی سے زائد حصے کا کنٹرول اسلامک اسٹيٹ سنبھالے ہوئے ہے، جس ميں شہر کے تمام مشرقی، شمالی مشرق کا کچھ حصہ اور جنوب مشرق کا ايک حصہ شامل ہيں۔ کوبانی ميں جہاديوں کے خلاف برسرپيکار کرد فوج کے ايک کمانڈر نے جہاديوں کی واضح پيش قدمی کی تصديق کر دی ہے۔

دريں اثناء ترک وزير خارجہ نے کوبانی کی مدد کے ليے اپنے ملک کی فوج بھيجنے سے انکار کر ديا ہے۔ انقرہ کا دورہ کرنے والے مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے چيف کے ہمراہ ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترکی سے يہ توقع رکھنا کہ وہ بذات خود زمينی آپريشن کر سکتا ہے ’حقيقی‘ نہ ہو گا۔ ان کے بقول ترکی کی حکومت اپنے اتحاديوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے اور زمينی کارروائی کے حوالے سے جب کوئی مشترکہ فيصلہ سامنے آئے گا، تو ترکی اپنا کردار اد کرے گا۔

ادھر ترکی ميں کرد مظاہرین شامی کرد علاقے کوبانی میں اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں پر انقرہ حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن نہ لینے پر سراپا احتجاج ہیں۔ مشرقی صوبے بینگول میں گزشتہ روز ہونے والی تازہ جھڑپوں میں کم از کم دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ایک اعلیٰ پولیس اہلکار شدید زخمی ہو گیا۔

دیگر پر تشدد واقعات میں چار مظاہرین بھی ہلاک ہو گئے۔ کرد آبادی والے اس صوبے میں گزشتہ قريب ايک ہفتے سے مظاہرے جاری ہیں۔ رواں ہفتے بدھ کے روز ان مظاہروں میں پچیس افراد مارے گئے تھے۔ علاقے میں امن بحال کرنے کے لیے فوج تعینات کر دی گئی ہے لیکن پھر بھی مظاہرین اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔