اسرائیل میں مخلوط تعلیم کے رجحان میں کمی
5 دسمبر 2011معروف اسرائیلی اخبار ہیریٹز میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ریاست کے دینی اداروں میں شروع کیے جانے والے اس اقدام کے نتیجے میں اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں اور بچیوں کو الگ الگ اسکولز میں درس و تدریس فراہم کرنےکا سلسلہ فروغ پا رہا ہے۔ وزارت تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے پرائمری اسکولز میں صنفی بنیادوں پر تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی شرح 65 فیصد ہے جبکہ ایک دہائی قبل یہ شرح صرف 25 فیصد تھی۔ اسرائیلی حکومت تین قسم کے تعلیمی اداروں کو فنڈز فراہم کرتی ہے۔ ان میں ریاست کی زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی ادارے ، قومی دینی ادارے اور کٹر قدامت پسند تعلیمی ادارے شامل ہیں۔
ریاست کی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں میں مخلوط درس و تدریس کا نظام رائج ہے جبکہ کٹر قدامت پسند اداروں میں صنفی بنیادوں پر تعلیم دی جاتی ہے۔ محکمہء شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دو برسوں میں پرائمری سطح کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی شرح کٹر قدامت پسند اسکولز میں28.9 فیصد ، قومی دینی اداروں میں 18.5 فیصد جبکہ ریاست کے زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں میں 52.6 فیصد رہی۔ اسی طرح ثانوی سطح کے تعلیمی اداروں میں یہ شرح بالترتیب 20.2 فیصد، 17.3 فیصد اور 62.5 فیصد رہی ہے۔
اخبار کے مطابق صنفی بنیادوں پر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کو لاکھوں ڈالرز زائدخرچ کرنے پڑ رہے ہیں کیونکہ بچوں اور بچیوں کی الگ الگ درس و تدریس کے لیے اسکولوں میں کلاس رومز معمول کے مقابلے میں کافی چھوٹے سائز کے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل میں خواتین کے حقوق اور ملک میں کٹر قدامت پسند کمیونٹی کو حاصل اختیارات کے حوالے سے بحث جاری ہے۔
عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کٹر قدامت پسند کمیونٹی عورتوں پر اپنی ثقافتی روایات مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سیاسی شخصیات بشمول دارالحکومت یروشلم کے میئر بھی ان کاروائیوں کے سدباب میں بےبس نظر آتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی اسرائیل میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے یہودی ریاست میں صنفی بنیادوں پر وضع کیے گئے ٹرانسپورٹ کے نظام پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی