اسرائیل میں انتہائی قدامت پسند حکومت کا قیام
25 مئی 2016ذرائع کے مطابق اب ایوگڈور لیبرمین وزیر دفاع ہوں گے جبکہ اسی پارٹی کے ایک اور رکن کو تارکین وطن کی وزارت کا قلمدان سونپا جائے گا۔ سخت گیر موقف رکھنے والے لیبرمین نے کہا ہے کہ وہ ایک متوازن پالیسی اختیار کریں گے۔ لیبرمین اس سے قبل 2009ء سے 2012ء تک وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم بدعنوانی کے الزام میں انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر گیارہ ماہ بعد وہ دوبارہ عملی سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے تھے۔
وزارتِ دفاع کا منصب جب ایوگڈور لیبرمین سنبھال لیں گے تو اسرائیلی پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کو 61 اراکین کی جگہ 66 کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے ہی نیتن یاہو اس کوشش میں تھے کہ لیبرمین کو اپنی حکومت کا حصہ بنا سکیں اور انجام کار وہ اس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ نیتن یاہو کی سابقہ حکومت میں لیبرمین وزیر خارجہ تھے۔
حکومت میں شامل ہونے کی ڈیل پر دستخط کرنے کی تقریب میں دونوں لیڈروں نے عبرانی زبان میں گفتگو کو موقوف کرتے ہوئے انٹرنیشنل کمیونٹی سے مخاطب ہونے کے لیے انگریزی میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ اُن کی حکومت فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ دیگر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ بھی امن کے حصول کے ارادے پر کاربند رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی عوام کی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے وہ امن کے ہر راستے پر گامزن ہونے کے لیے تیار ہیں اور اُن کی یہ پالیسی کسی صورت میں تبدیل نہیں ہو گی۔
نیتن یاہو کے بعد ایوگڈور لیبرمین نے کہا کہ کہ وہ ایک ذمہ دارانہ اور معقول پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت میں شامل تمام افراد امن کے حصول کے لیے مضبوط تہیہ کیے ہوئے ہیں اور یہ عزم دو ریاستی حل کے حتمی مرحلے تک جاری رہے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ماضی میں لیبرمین عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے تمام لیڈروں کو ہلاک کرنے کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیر خارجہ کو وزیر دفاع بنانے پر فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ دو ریاستی امن منصوبے پر پیش رفت کا سلسلہ سن 2014 سے معطل ہے اور اب لیبرمین کے وزیر دفاع بننے کے بعد اس کی بحالی مزید غیر یقینی ہو گئی ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رضائنہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے فلسطینی تنازعے کا حل ناگزیر ہو گیا ہے۔ لیبرمین کے بیان کے حوالے سے ابورضائنہ نے کہا تھا کہ وقت بتائے گا کہ وہ اپنے قول پر کتنا عمل کرتے ہیں۔