اسرائیل فلسطین تنازعہ اور عرب ممالک کی نا اتفاقی۔
7 فروری 2007عرب لیگ میں نااتفاقی ایک روایتی حیثیت رکھتی ہے۔ عرب ممالک کے درمیان اختلاف رائے اس قدر شدید ہے کہ بعض عرب سربراہان اس تنظیم کی سالانہ کانفرنس میں شر کت ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ طویل تقاریر اور بحثوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ بیروت میں قائم ایک ادارے International Crisis Group سے وابستہ Patrick Haenni کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ً عربوں میں الگ الگ رائے کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ آخر وہ کیوں متفق ہوں؟ ہماری ہمیشہ سے یہ فریب خیالی رہی ہے کہ عرب ممالک میں ان کی مشترکہ زبان عربی کے باعث اتحاد بیدار ہو گا یا وہ اس لئے متحد ہو جائیں گے کہ ان مین سے اکثر مسلمان ہیں۔ لیکن کیا تمام عیسائی متحد ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے ً
پانچ سال قبل جب فلسطینیوں کی اِنتفاضہ تحریک اپنے عروج پر تھی تو عرب لیگ نے مل کر کام کرنے اورمتحد ہونے کی ضرورت محسوس کی تھی۔2002 میں بیروت منعقد سربراہ کانفرس میں عرب لیگ نے اسرائیل کو ایک پیشکش کی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں سے سمجھوتہ کر لے اور شام کو گولان کی پہاڑیاں واپس کر دے تو عرب لیگ تمام ارکان اسرائیل کے ساتھ امن قائم کر لیں گے قابل ذکر بات یہ ہے کہ عربوں نے امن معاہدے کی تشکیل کے بارے میں کسی قسم کے ٹھوس مطالبات پیش نہیں کئے تھے۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے اس پیشکش کو نظر انداز کر دیا تھا اور امریکہ نے بھی اسے محض ایک دلچسپ تجویز کہا تھا۔ اس طرح سے عربوں کی امن کی پیشکش لاحاصل رہی تھی۔
اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کا تاریخی محاذ اب باقی نہیں رہا۔مصر اور اردن اسرائیل کے ساتھ امن قائم کر چکے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والی کوئی بھی عرب ایک بھی ریاست امریکہ کو اسرائیلی فلسطین تنازعے میں اسرائیل کی طرف داری کے بجائے ایک متوازن طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکی ہے ۔