1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی آباد کار پالیسیاں: یورپی احتجاج

3 دسمبر 2012

کئی یورپی ممالک نے اپنے اپنے ہاں متعینہ اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے اسرائیل کے اُن منصوبوں پر احتجاج کیا ہے، جن میں مشرقی یروشلم اور مغربی اردن میں تین ہزار نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/16uta
تصویر: picture alliance/dpa

پورے یورپ میں اسرائیلی اقدام کو تشویش کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں ماضی میں اس طرح کے اسرائیلی اعلانات کے جواب میں عموماً مذمتی بیانات ہی پر اکتفا کیا جاتا تھا، وہاں اس بار فرانس، برطانیہ اور سویڈن نے ان اسرائیلی منصوبوں پر احتجاج کرنے کے لیے اپنے اپنے ہاں متعینہ اسرائیلی سفیروں کو طلب کر ليا ہے۔

فرانسیسی حکومت نے ایک خط بھی اسرائیلی حکومت کو روانہ کیا ہے، جس میں ان رہائشی مکانات کی تعمیر کو ’دو ریاستی حل‘ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔

مشرقی یروشلم میں ایک تعمیراتی سائٹ پر مصروف کار بلڈوزر
مشرقی یروشلم میں ایک تعمیراتی سائٹ پر مصروف کار بلڈوزرتصویر: picture alliance/dpa

وفاقی جرمن حکومت نے بھی اس اسرائیلی اقدام پر شدید الفاظ میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ برلن حکومت کے ترجمان اسٹیفن زائبرٹ نے کہا کہ اپنے اس اقدام سے اسرائیل ایک ’منفی پیغام‘ بھیج رہا ہے اور ’مکالمت پر آمادگی کے سلسلے میں اپنے اعتماد کو نقصان‘ پہنچا رہا ہے۔ جرمن ترجمان نے مزید کہا کہ اس اقدام سے مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست کے لیے جغرافیائی علاقہ مزید کم ہو جائے گا جبکہ یہ علاقہ ہی ’دو ریاستی حل‘ کے لیے ایک بنیادی شرط کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ ترجمان نے اسرائیلی حکومت سے اپیل کی کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے لے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یروشلم اور مغربی اُردن میں پانچ لاکھ اسرائیلی جبکہ 2.5 ملین فلسطینی آباد ہیں۔

لندن حکومت نے بھی اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپنا یہ فیصلہ واپس لینے کے لیے کہا ہے۔ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہ نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا اعلان اقوام متحدہ میں فلسطین کو نان ممبر مبصر کا درجہ ملنے کے بعد کیا تھا، جس پر اسرائیل کو شدید غصہ تھا۔ تب فرانس نے فلسطین کے اس تشخص کے حق میں ووٹ ڈالا تھا جبکہ برطانیہ نے اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھا تھا۔

یروشلم کے قریب یہودی آباد کاروں کی ایک بستی
یروشلم کے قریب یہودی آباد کاروں کی ایک بستیتصویر: picture alliance / landov

بتایا گیا ہے کہ لندن اور پیرس کی حکومتیں تو تل ابیب میں اپنے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کے غیر معمولی اقدام پر بھی غور کر رہی ہیں لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ابھی اسرائیل کے ساتھ کسی سنگین بحران سے بچنے کے لیے کچھ گنجائش موجود ہے اور بہت سے دیگر طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

یہودی آباد کاروں کے لیے ہزاروں نئے مکانات کی تعمیر کے اسرائیلی اعلان پر روس نے بھی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ نئے رہائشی مکانات کی تعمیر اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے ’دو ریاستی حل‘ کے امکان کو تقریباً ختم کر دے گی۔

aa/as (dpa, Reuters)