اسرائیلی آباد کار پالیسیاں: یورپی احتجاج
3 دسمبر 2012پورے یورپ میں اسرائیلی اقدام کو تشویش کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ جہاں ماضی میں اس طرح کے اسرائیلی اعلانات کے جواب میں عموماً مذمتی بیانات ہی پر اکتفا کیا جاتا تھا، وہاں اس بار فرانس، برطانیہ اور سویڈن نے ان اسرائیلی منصوبوں پر احتجاج کرنے کے لیے اپنے اپنے ہاں متعینہ اسرائیلی سفیروں کو طلب کر ليا ہے۔
فرانسیسی حکومت نے ایک خط بھی اسرائیلی حکومت کو روانہ کیا ہے، جس میں ان رہائشی مکانات کی تعمیر کو ’دو ریاستی حل‘ کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی جرمن حکومت نے بھی اس اسرائیلی اقدام پر شدید الفاظ میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ برلن حکومت کے ترجمان اسٹیفن زائبرٹ نے کہا کہ اپنے اس اقدام سے اسرائیل ایک ’منفی پیغام‘ بھیج رہا ہے اور ’مکالمت پر آمادگی کے سلسلے میں اپنے اعتماد کو نقصان‘ پہنچا رہا ہے۔ جرمن ترجمان نے مزید کہا کہ اس اقدام سے مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست کے لیے جغرافیائی علاقہ مزید کم ہو جائے گا جبکہ یہ علاقہ ہی ’دو ریاستی حل‘ کے لیے ایک بنیادی شرط کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ ترجمان نے اسرائیلی حکومت سے اپیل کی کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے لے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یروشلم اور مغربی اُردن میں پانچ لاکھ اسرائیلی جبکہ 2.5 ملین فلسطینی آباد ہیں۔
لندن حکومت نے بھی اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپنا یہ فیصلہ واپس لینے کے لیے کہا ہے۔ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہ نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا اعلان اقوام متحدہ میں فلسطین کو نان ممبر مبصر کا درجہ ملنے کے بعد کیا تھا، جس پر اسرائیل کو شدید غصہ تھا۔ تب فرانس نے فلسطین کے اس تشخص کے حق میں ووٹ ڈالا تھا جبکہ برطانیہ نے اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ لندن اور پیرس کی حکومتیں تو تل ابیب میں اپنے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کے غیر معمولی اقدام پر بھی غور کر رہی ہیں لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ابھی اسرائیل کے ساتھ کسی سنگین بحران سے بچنے کے لیے کچھ گنجائش موجود ہے اور بہت سے دیگر طریقے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
یہودی آباد کاروں کے لیے ہزاروں نئے مکانات کی تعمیر کے اسرائیلی اعلان پر روس نے بھی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ نئے رہائشی مکانات کی تعمیر اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے ’دو ریاستی حل‘ کے امکان کو تقریباً ختم کر دے گی۔
aa/as (dpa, Reuters)