اسرائيلی وزير اعظم جرمنی کے دورے پر
6 دسمبر 2012جرمنی ميں اسرائيلی حکومت پر تنقيد ميں بہت احتياط برتی جاتی ہے۔ اسرائيلی وزير اعظم کی جرمن رہنماؤں سے جو بات چيت ہو رہی ہے اُسے اسی تناظر ميں ديکھنا ہوگا۔
اگر غور کيا جائے تو اسرائيلی وزير اعظم اور جرمن حکومت کے مابين مذاکرات کے ايجنڈے پر جو موضوعات ہيں وہ دونوں کے ليے دشوار نہيں ہيں۔ جہاں تک ٹیکنالوجی اور تعليم کے شعبے ميں تعاون کا تعلق ہے تو مذاکرات آسان ہيں ليکن مشرق وسطٰی ميں اسرائيلی فلسطينی تنازعے کے سلسلے ميں تازہ ترين واقعات کے حوالے سے يہ مذاکرات دشوار ہيں۔
خاص طور پر اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو کا مشرقی يروشلم اور مغربی اردن ميں 3000 نئے رہائشی يونٹ تعمير کرانے کا فيصلہ ايک اختلافی موضوع ہے۔ يروشلم کے مشرق ميں ای۔ ايک نامی حساس علاقے ميں اسرئيلی آبادکاری سے مغربی اردن کا مقبوضہ علاقہ تقريباً دو حصوں ميں منقسم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ مشرقی يروشلم کے عرب حصے کا رابطہ بقيہ فلسطينی علاقوں سے بھی منقطع ہو جائے گا۔ اسی ليے جرمن حکومت اور دوسرے مغربی ممالک نے کہا ہے کہ اسرائيلی حکومت يہ فيصلہ واپس لے لے۔
اسرائيل کے ساتھ اچھے تعلقات جرمن خارجہ سياست کے لنے بنيادی اہميت رکھتے ہيں۔ اس سلسلے ميں نازيوں کے دور ميں ہونے والے يہوديوں کے قتل عام کی وجہ سے جرمنی پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
جرمن وفاقی پارليمنٹ کی امور خارجہ کی کميٹی کے چيئر مين رُوپريشت پولنس نے ڈوئچے ويلے سے کہا کہ مشرق وسطٰی ميں امن دو رياستی حل، يعنی اسرائيل اور فلسطين کی الگ الگ آزاد رياستوں کے ذريعہ ممکن ہے: ’’اب اگر اسرائيل ای ايک ميں يہوديوں کے نئے مکانات تعمير کرتا ہے تو اس سے قيام امن اور مشکل ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ اس ليے يہ ازحد ضروری ہے کہ جرمن چانسلر ميرکل اسرائيلی وزير اعظم سے اپنی بات چيت ميں آبادکاری کے اس اسرائيلی منصوبے پر اپنے تفکرات کا کھل کر اظہار کريں۔
جرمن اسرائيلی پارليمانی اراکين کے گروپ کے چيئر مين ييرسی مونٹاگ نے کہا: ’’چانسلر ميرکل کو جرمن اسرائيلی تاريخی بندھن کو توڑے بغير واضح اور صاف طور پر بات کرنا چاہيے۔‘‘
اسرائيلی وزير اعظم نيتن ياہو نے گزشتہ روز جرمنی ميں برسرعام میرکل حکومت پر تنقيد کی کہ اُس نے اقوام متحدہ ميں فلسطين کو ايک غير رياستی مبصر کی حيثيت دينے کی قرارداد کی مخالفت نہيں کی۔
مونٹاگ اور پولنس دونوں نے اس سلسلے ميں بھی اسرائيلی پاليسی کی مخالفت کی اور کہا کہ اسرائيل کو يہ سمجھنا پڑے گا کہ دنيا نے تقريباً متفقہ طور پراقوام متحدہ ميں فلسطينيوں کی اس حيثيت کی حمايت کی ہے۔
A.Gorzewski,sas/M.Borger,ah