احتجاج کا انڈونیشی طریقہ، پولیس کے لیے جوتے
5 جنوری 2012گزشتہ کچھ عرصے سے انڈونيشی شہری بھی جوتوں کے ذریعے اپنے احتجاجی پيغام دينے کی کوششیں کر رہے ہيں۔ يہ احتجاج پوليس چوکيوں کے باہر جوتے جمع کرنے کے ذريعے کيا جا رہا ہے کيونکہ پولیس نے پلاسٹک کے سينڈل چرانے کے الزام ميں ايک لڑکے پر تشدد کيا تھا۔ اب تک شہريوں کی اس احتجاجی مہم کے دوران 1200 سے زيادہ پلاسٹک کی چپليں اور سينڈل جکارتہ کے تھانوں کے باہر ڈھیر کيے جا چکے ہيں۔
جس 15 سالہ لڑکے کے ساتھ پوليس کے رويے کے خلاف احتجاج کے ليے يہ مہم چلائی جا رہی ہے، اس پر پوليس اہلکاروں کے سينڈل چرانے کا الزام ہے۔ اس لڑکے پر مرکزی سولاويسی صوبے ميں مقدمہ چلايا جا رہا ہے۔ اس مہم اور پوليس کو جوتوں کے عطيے دينے کا انتظام کرنے والے ايس او ايس چلڈرن وليج کے کارکن بُدھی کُرنياوان نے کہا: ’’ہم پوليس کو جوتوں کے عطيات دينے کے ذريعے اس لڑکے کے ساتھ پوليس کے ظالمانہ برتاؤ پر اپنی برہمی کا اظہار کرنا چاہتے ہيں۔‘‘
لڑکے کے کم عمر ہونے کی وجہ سے اُس کا نام ظاہر نہيں کيا جا رہا ہے اور اسے صرف AAL سے موسوم کيا جا رہا ہے۔ کُرنياوان نے کہا کہ مئی ميں اس لڑکے کی طرف سے يہ تسليم کرنے کے بعد کہ اُس نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر پوليس کے ايک ہوسٹل کے باہر سے سينڈل چرائے تھے، پوليس نے اُسے بہت مارا پيٹا تھا۔‘‘
اس لڑکے پر چلائے جانے والے مقدمے سے انڈونيشيا کا عدالتی اور قانونی نظام توجہ کا مرکز بن گيا ہے، جس کے تحت آٹھ سال کی عمر کے بچوں کو بھی عدالت ميں پيش کيا جا سکتا ہے اور 12 سال کی عمر کے بچوں کو تو سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
انڈونيشيا کی جيلوں ميں اس وقت تقريباً پانچ ہزار کمسن بچے قيد ہيں۔ حکام اور حقوق اطفال کے ليے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ کم سن افراد کے لیے قائم قيد خانوں ميں جگہ کی قلت کا مطلب يہ ہے کہ بچے بالغوں کی جيلوں ميں بھی بند ہيں۔
اگر اس لڑکے پر پوليس کے سينڈل چرانے کا الزام ثابت ہو گيا تو اُسے پانچ سال تک قيد کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ليکن اس کيس ميں زبردست عوامی دباؤ کے نتيجے ميں ممکنہ طور پر نابالغ ملزم کو جو بھی سزا ہو گی، وہ خاصی نرم ہو گی۔
تھانوں کے باہر جو جوتے جمع کيے گئے ہيں، وہ جکارتہ ميں نيشنل کميشن آن چلڈرن کی طرف سے پورے ملک سے جمع کيے گئے۔ ان کے علاوہ 25 جوڑے جوتے جرمنی سے بھی بھیجے گئے۔ کُرنياوان نے کہا کہ اس مہم کے لیے جرمنی میں یہ جوتے جمع کرنے کا کام وہاں زير تعليم انڈونيشی طلبا نے کیا۔
رپورٹ: ڈی پی اے / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک